kohsar adart

ذکر ایک گمشدہ بچھڑے کا

ماضی کے جھروکوں سے۔۔۔ محمد نعیم

 

برف باری تو نہ ہو مگر شدید قسم کی سردی پڑ رہی ہو۔ آپ سردی سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو روئی سے بنے موٹے اور بھاری لحاف میں سر سے لے کر پاؤں تک لپیٹے ہوئے نیند کی گہری وادیوں میں پہنچے ہوئے ہوں، آدھی رات کا وقت گزر چکا ہو، اور آدھی رات بھی اس علاقے کی جہاں مغرب ہوتے ہی اندھیرا چھا کر سناٹا ہو جاتا ہے، ایسی سرد اور اندھیری رات ایک خوفناک آواز سے ہڑبڑا کر آپ کی آنکھ کھل جائے۔ آپ لحاف کے بنکر سے تھوڑا سا منہ باہر نکال کر کچھ سمجھنے، سننے کی کوشش کریں تو لگے کہ جس کمرے میں آپ اکیلے سو رہے ہیں ، اس کی کچی چھت پر کوئی بہت ہی بڑی اور بھاری بھرکم چیز تیزی سے دوڑ رہی ہے۔

پہاڑی علاقے میں ہمارا گھر ایسی جگہ پر ہے جہاں دن کی روشنی میں بھی انسان تھوڑی دقت سے پہنچتے ہیں ۔ رات کے وقت وہ بھی جب آدھی رات گزر چکی ہو، اس طرح کی آواز سن کر نہایت خوفزدہ ہو جانا ایک فطرتی سی بات ہے۔ اور یہ خوف اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب آپ کو گھر میں سنائی گئی پہاڑی بلاؤں کی کوئی کہانی اسی وقت یاد آ جائے۔

میرے ذہن میں اس وقت ایسی ہی خوف کی ایک جنگ چل رہی تھی اور میں نے ان آوازوں سے جان چھڑانے کے لیے اپنے لحاف کو دوبارہ اوپر تک سختی سے اوڑھ اور اس میں دبک کر تھرتھرانے لگا ، کیوں کہ مجھے خطرہ تھا کہ یہ جو بھی بلا ہے ۔ ابھی چھت اکھاڑے گی اور مجھے کھا جائے گی۔ دو تین چکر لگانے کے بعد وہ بلا اس کمرے کے ساتھ بنے باتھ روم کے اوپر جب آئی تو سمجھیں شور کا ایک طوفان آ گیا اور خوف کے مارے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دل اچھل کر حلق میں آ گیا ہو۔ کیوں کہ غسل خانے کی چھت ٹین سی بنی چادروں کی تھی اور اس پر شور بہت زیادہ محسوس ہوا۔

اچانک باہر شور میں مجھے انسانی آوازوں کی بھی آمیزش سنائی دی اور یوں لگا جیسے والد صاحب جنھیں ہم چچا جان کہتے تھے ان کی آواز، ماں جی کے بولنے کی آواز اور گل زرین بھائی جو شادی شدہ تھے اور اس وقت الگ گھر میں رہتے تھے، ان کے بھی کچھ بولنے کی آوازیں آنے لگی ہیں۔ جب دیکھا کہ گھر کے اور لوگ بھی جاگ گئے ہیں تو میں بھی شیر بن گیا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ ہمارے گھر بھی ویسے ہی تھے جیسے عموماً پہاڑی علاقوں کے گھر ہوتے ہیں ۔ یعنی ایک گھر کی چھت اس سے پچھلے گھر کا صحن ہوتی ہے۔ اور گھر سیڑھیوں جیسی ترتیب میں بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔

باہر نکل کر دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک بچھڑا کھڑا ہے۔ بچھڑا کیا یوں کہیں ایک صحت مند اور غصے میں بپھرا ہوا بیل تھا۔ وہ اپنے ایک پاؤں کو زمین پر مار کر ایسے پھنکار رہا تھا جیسے ابھی حملہ کر دے گا۔ اس کی ٹانگوں پر کئی جگہ خون کے دھبے تھے ۔

نہ گلے میں کوئی رسی، نہ ناک میں نکیل۔ چچا جان کی کوشش تھی کہ کسی طرح اسے مزید بھاگنے سے روکیں ، کیوں کہ اگر وہ اور بھاگنے کی کوشش کرتا تو ہمارے گھر کے سامنے موجود کھائی(پسی) میں گھر کر ہلاک ہو سکتا تھا۔ چچا جان نے گھر سے ایک رسی منگوائی اور اسے تھوڑی دیر پچکارتے رہے۔ بچھڑے نے محسوس کیا کہ وہ اب خطرے میں نہیں ہے تو تھوڑا شانت ہونے لگا۔ پھر چچا جان نے رسی کا ایک ہالہ سا بنا کر اس کی گردن پر اچھالا اور دوسری طرف سے رسی اٹھا کر اس کے گلے میں باندھ لی۔ اس دوران ماں جی انھیں مسلسل منع کرتی رہیں کہ نجانے کیا بلا ہے جو بچھڑے کا روپ دھار کر رات اس وقت یہاں آ گئی ہے۔ خیر ہم نے اسے ایک خالی کمرے میں موجود ایک ستون سے ہی باندھ دیا کیوں کہ ہمارے گھر میں جانوروں کے باندھنے کا کوئی الگ سے باڑا نہیں تھا۔ بکریوں کے لیے جگہ بنی ہوئی تھی ۔ مگر وہ بچھڑے کی جسامت کے مقابل میں چھوٹی تھی۔

 

بات مختصر کرتے ہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ شاید ایک ڈیڑھ ماہ گزر جانے کے بعد کالا باغ بازار میں کسی دور کے گاؤں کا کوئی شخص کسی کے سامنے کہ رہا تھا کہ جنگل میں ہم نے جو اپنے جانور چرنے کے لیے کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک لاپتہ ہے۔ سارا جنگل چھان مارا ہے مگر نہیں ملا۔ کچھ دن پہلے لوگوں نے شیر کی دھاڑ بھی سنی تھی۔ لگتا ہے شیر نے اسے مار دیا ہو گا۔ یہ باتیں وہاں قریب سے گزرتے ہوئے کسی دکان والے نے سنیں تو انھوں نے کہا کہ فلاں گاؤں کے ایک بالا چاچا اس بازار میں کام کرتے ہیں ۔ کچھ وقت پہلے وہ کسی بچھڑے کے ملنے کی بات کر رہے تھے ۔ ان سے معلوم کر لو۔ وہ بندہ پوچھتا پوچھتا والد صاحب کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ چچا جان نے جب اس سے بچھڑے کی نشانیاں پوچھیں تو اس نے وہی بتائیں۔ پھر وہ ان کے ساتھ بازار سے ہمارے گاؤں آگیا اور اپنا بچھڑا لے کر چلا گیا۔ انھوں نے چچا جان کو اس کا معاوضہ وغیرہ بھی دینے کی کوشش کی تھی۔ جو انھوں نے نہیں لیا تھا۔ غالباً پھر انھوں نے کوئی سوٹ وغیرہ تحفتاً انھیں دیا تھا۔ جو انہوں نے بچھڑے کے مالک کی خوشی کے لیے رکھ لیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ شیر وغیرہ سے گھبرا کر وہ بچھڑا روڈ پر بھاگ کر آ گیا اور پھر گاڑیوں اور انسانوں کے شور سے گھبرا کر بھاگتا ہوا تقریباً پندرہ بیس کلو میٹر دور کی آبادی میں آ گیا تھا۔ یہ کہانی اگر کسی کو یاد ہو گی تو وہ لکھ دیں گے کہ وہ بچھڑا کس کا تھا اور وہ صاحب کس گاؤں کے رہنے والے تھے۔

 

 

 

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More