kohsar adart

ذائقے آنسوؤں کے

اُم عزوہ

ایک تحریر پڑھ رہی تھی۔سوال تھا آنسوؤں کے کتنے ذائقے چکھے ہیں؟اشک کتنے رنگوں میں دیکھا ہے؟۔۔۔تحریر وہیں رک گئی اور میں لفظ بننے لگی۔۔۔میں بے ساختہ لکھنے لگی(کبھی اچانک خود کلامی لکھنے کو دل چاہنے لگتا ہے نا۔۔بس اس تحریر کو ایسا ہی سمجھا جائے)
یہ تحریر آنسوؤں کے ذائقے کا پوچھ رہی ہے۔۔بہت رنگ ہیں اشکوں کے۔میں نے ہر رنگ کا ذائقہ چکھا ہے۔کتاب کے لمس کے ساتھ تحریر کے دکھوں کا ذائقہ۔۔اففف۔۔۔ہچکیاں لے کر۔۔۔۔بہت سی کہانیاں ۔۔۔بولتی کتابوں میں دکھ اور ہجر کے ذائقے کو چکھ کر۔۔جب سب سے پہلے ایک ناول مکمل پڑھا آٹھویں جماعت میں” بچپن کا دسمبر”.اس کے ہر الوداع کے عنوان پر روئی تھی، چھپ کر۔۔۔ہر رونے نے تخلیق کی صلاحیت دی۔یہ اور بات ہے کہ کبھی قرطاس پر انڈیل دیا کبھی دل میں ہی قید کر دیا۔۔۔خیال کو لفظوں کا پیرہن نہ ڈالا۔وہ ننگ دھڑنگ دماغ میں رقصاں ۔۔۔آخر کار مٹتے گئے اور ان کہی کے دکھ نے اور کندن بنا دیا۔۔
ابو جی۔۔ ہاں ابو جی جب بیمار ہوئے۔ راتوں کو روئی ہر نماز کے بعد روئی۔ اس رونے میں ابو کی صحت کے لیے اللہ جی سے ضد اور ایک انجانے خوف نے آنکھوں کو تڑپایا۔۔ایک تحریر لکھی "بوسہ” لوگوں کے دلوں کو چھو گئی۔۔
ایک بار جب بیٹا بچھڑا 45 دن کا ۔پہلے تو اتھرو سارے سینے میں اٹک گئے ۔دل برف کا ہو گیا۔ ہر احساس سے عاری۔ میں پتھر۔۔۔ عورتیں آتیں گلے لگتیں، امی کے ،جیٹھانی کے ،مجھ سے گلے لگنے کی انہیں ہمت نہ ہوتی میں بالکل اجنبی لا تعلق بنی بیٹھی رہتی۔عورتوں کے تبصرے میرے کانوں پر پڑتے "ہائے شودی نکی جئی اے۔۔ اساں نئی سمجھ کہڑا پہاڑ ٹوٹا اے۔۔” کچھ کہتیں،اس نے کدھر سنبھالا ہے ماں اور جیٹھانی نے ہی دیکھا بھالا ،غم بھی انہیں ہی ہے ۔ان ہی کے گلے لگتیں، بین ڈالتیں، میں کترا کر کمرے میں آ جاتی۔ پھر ہر جگہ میرو کا عکس ،میرو کا سایہ مجھے نظر آنے لگتا اور پھر کمرہ بند ہو جاتا۔۔۔آنسو چیخ کی صورت اختیار کر لیتے اور بس پھر میں ہوتی اور اشک۔کئی عرصے تک کسی بچے کی چھوٹی سی بیماری مجھ سے دیکھی نہ جاتی اور میں ایبنارمل صورتحال میں چلی جاتی۔انہی دنوں دعا مانگی اللہ جی اب ایسے کسی غم سے میرے دشمن کو بھی دوچار نہ کرنا۔ وقت نے مرہم رکھ دیا۔یہ اور بات ہے کہ غم شوگر کا مرض بن کر اس زخم کو بھرنے نہ دیں۔۔۔
فلم ۔۔۔مووی ۔۔ایک آدھ دیکھی۔ افففف خدایا ہچکیوں کے ساتھ اس قدر روئی کی آنکھیں سوج گئیں۔ دل کو ڈانٹا کیسا ناہجار ہے۔ فلم کے ہجر کو دیکھ کے روتا ہے۔۔ توبہ کر۔۔۔ اور توبہ۔۔کہ اس کے بعد کی تخلیق پر لوگوں کی واہ کے ساتھ اپنا بھی دل جھوم جھوم اٹھا۔۔۔۔۔ کئی خواب ٹوٹنے پر روئی۔۔یہی سیکھا جیسے خوشی کے کئی رنگ ہیں ویسے ہی آنسوؤں کہ کئی ذائقے ہیں۔ دکھوں کے بھی تو کئی رنگ ہیں۔خوشی ہاں خوشی سے یاد آیا خوشی کے آنسو چہرہ کھلا دیتے ہیں ۔کئی بار ایسا بھی ہوا ہنستے ہنستے آنکھ اشک بار ہوئی رب کا شکر ادا کیا جس نے مجھ گنہگار کو کبھی اپنے در سے خالی نہ بھیجا۔کئی مان ہیں جن کا رشتہ آنکھوں سے ہے۔ کئی خواب ہیں جو آنکھوں پر ٹکے ہیں۔ سارے ہنجو مل کر بھی ان خوابوں کو آنکھوں سے نکال نہ سکے۔اب بھی کسی خواب کے ٹوٹنے پر آنکھ روتی ہے سب ذائقے کو سمجھتی ہے۔۔سوچتی ہوں کہ اشک نہ ہوتے تو دل کہاں برداشت کر سکتا تھا۔۔۔نہ خوشی نہ کرب ۔کب کا پھٹ جاتا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More