دیہاڑی دار مزدور کو یوم مزدور کب مبارک ہوگا؟
ہارون الرشید عباسی
رفیق کا تعلق آزاد کشمیر کے کسی دور دراز گاوں سے تھا
جوانی اس نے مزدوری میں کھپائ۔
وہ بازار سے گاوں تک لوگوں کا سودا سلف لے کر جاتا تھا۔ وہ باربردار مزدور تھا جس نے ہمیشہ محنت اور خون پسینے کی کمائ سے گزر اوقات کی ۔
آپ نے اپنے گاوں میں بہت سے مزدور دیکھے ہوں گے، لکڑیاں کاٹتے ، کھیتوں میں وٹ بندی کرتے، آسودہ حال لوگوں کے مویشیوں کےلیئے چارہ ڈھوتے، گھاس کاٹتے اور کھیتی باڑی میں جتے ہوئے مزدور ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کی خاطردن بھر ریت سیمنٹ اور پتھروں سے الجھتے ہیں۔
رفیق بھی انہی میں سے ایک تھا۔ میں نے اپنے بچپن میں اسے آسودہ حال لوگوں کا بوجھ اٹھاتے دیکھا۔
گزشتہ برس میری دکان پہ ایک بوڑھا بھکاری آیا جس کے ایک بازو میں کچھ خرابی تھی۔ چہرے کے خال و خد کچھ جانے پہچانے لگ رہے تھے۔ غور کرنے پہ معلوم ہوا کہ وہی رفیق ہے جو باربرداری کے ذریعے رزق حلال کمانے کا عادی تھا۔
ہمارے ہاں دیہاڑی دار مزدور کے کوئ حقوق نہیں ہیں، صرف فیکٹری یا آرگنائزیشن ورکر کو مزدور سمجھا جاتا ہے۔
ڈھابے کا باہر والا، ویٹر، سالن اور چائے بنانے والا، تندورچی، کنسٹرکشن کا مزدور، ریڑھی بان ، صفائ والا، دکان کا سیلز مین، پرائیویٹ سکول کے باہر بیٹھا سکیورٹی گارڈ اور کلاس کے اندر کرسی سے بھی محروم 5000 سے 15000 تک کی تنخواہ پہ کام کرتی خاتون ٹیچر یہ سب کسی کیٹیگری میں ہی نہیں آتے۔
ان کے کم از کم ویجز کی کسی کو کوئ پرواہ نہیں، ان کی کوئ پنشن نہیں، کوئی اولڈ ایج فوائد نہیں، علاج کی کوئی سپیشل سہولت نہیں۔
اپنا خون جلا کر، پسینہ بہا کر اور ہڈیوں کا سرمہ بنا کر سوسائٹی کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے والے مزدور کا مقدر رفیق کی طرح بھیک مانگنا یا ٹوٹی چارپائی پہ دوائی کے انتظار میں ایڑیاں رگڑتے مر جانا ہی کیوں ہے۔
دیہاڑی دار مزدور کو یوم مزدور کب مبارک ہوگا؟
ہارون الرشید عباسی
مری