دیول کا جندر
تحریر : حبیب عزیز
جندر پتھر کے پاٹوں سے بنی ہوئی آٹا پیسنے کی مشین ہے، جسے مختلف علاقوں میں گراٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے انگریزی میں واٹر مل اور پشتو میں ماېچن کہا جاتاہے۔
جندر نام کا اختر رضا سلیمی کا ناول بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے
(ایڈیٹر)
دیول کا جندر
یہ ہمارے علاقے کے جندر کی آخری تصویر ہے۔
ہماری ماں بولی "پہاڑی زبان” میں جندر "پن چکی” کو کہتے ہیں۔
پہاڑوں کی بلندی سے آنے والی تیز رفتار ندیوں کا پانی ایک خاص طریقے سے بنی نالی سے گزار کر پن چکی کے نچلے حصے میں نصب اس پنکھا نما گھن چکر کو چلانے کے لیے گزارا جاتا تھا۔ جب یہ پنکھا چلتا تھا تو اوپری حصے میں چکی کے پاٹ گھومنا شروع ہو جاتے تھے۔ اس طرح دیسی مکئی اور گندم کا آٹا پیسا جاتا تھا۔
چکی کے بے حد وزنی پاٹ کو ہماری زبان میں ” پلوٹ/پَلُٹّ ” کہا جاتا ہے، جو مقامی طور پر پتھروں کو تراش کر تیار کیے جاتے تھے۔ پن چکی موجودہ زمانے کے ٹربائن کی طرح آبی طاقت سے چلا کرتی تھی۔
اوپر دی گئی تصویر ہمارے بلیٹ کے آخری جندر کی ہے، جو میں نے یاشیکا کیمرے سے سن دو ہزار میں کھینچی تھی۔ ہمارے سامنے والے بلند پہاڑ پر ریالہ، ایوبیہ کا گاؤں ہے، جس کے نشیبی علاقے کو پہاٹی بانڈی کہا جاتا ہے۔ یہ جندر پہاٹی بانڈی میں قائم تھا اور لنگالی، دروازہ سے آنے والے کس (ندی ) کے پانی کی مدد سے چلتا تھا۔ اسے عام طور پر "دیول کا جندر” کہا جاتا تھا کیونکہ یہ دیول گاؤں کے بالکل سامنے واقع تھا۔
سن دو ہزار میں یہ جندر بند ہوچکا تھا۔ کچی مٹی کی کوٹھڑی نما عمارت اور جندر کی دیگر اشیاء تب تک موجود تھیں۔ لیکن افسوس اب یہ جگہ بے نشان ہوچکی ہے۔ کس سے آنے والے پانی کی نالی ٹوٹ کر ختم ہوچکی ہے۔ گزرے زمانے کی داستانیں اور واقعات سنانے والی یہ تاریخی یاد مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔۔۔
میرے اباجی مرحوم بتایا کرتے تھے کہ وہ اپنے بچپن، لڑکپن میں یہاں مکئی کے دانے پسوانے جاتے تھے۔ سادہ دور تھا۔ اس زمانے میں پہاڑی لوگوں کی روٹی عام طور پر مکئی کے آٹے سے بنا کرتی تھی کیونکہ مکئی یہاں کی مقامی پیداوار تھی۔ گندم کی روٹی کا چلن بہت ہی کم تھا۔ لوگ اپنی خوراک کی اکثر اشیاء اپنی زمینوں سے پیدا کیا کرتے تھے (اور پیداوار پر عشر ادا کرنے کا یہ عالم تھا کہ فصلیں تو ایک طرف پھل فروٹ بھی محلے میں اور رشتہ داروں کو بھیجا جاتا اور غریبوں اور فقیروں کو بھی خوش دلی سے دیا جاتا)۔ بدقسمتی سے آج ہماری زمینیں عدم کاشت کی وجہ سے بنجر ہو چکی ہیں اور مکئی کی روٹی ایک سوغات بن چکی ہے، جو کبھی کبھی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔
ابا جی بتایا کرتے تھے کہ وہ جندر پر سرشام جایا کرتے تھے۔ دن کو وہ سکول پڑھا کرتے تھے۔ وہ اکیلے نہیں جاتے تھے بلکہ ان کے دوست اور کزن بھی ساتھ آٹا پسوانے جاتے تھے۔
اس زمانے میں میرے دادا جی کراچی ہوا کرتے تھے، اس لیے گھر کی تمام ذمہ داری ابا جی کے سپرد تھی۔ ابا جی نے جندر آتے جاتے راستے میں جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لیے کتا پالا ہوا تھا۔ اس دور میں ہمارے اوسیاہ، دیول کے جنگلوں میں لومڑی گیدڑ اور بھیڑیا قسم کے چھوٹے جانور ہوا کرتے تھے۔ گیدڑ کو عام طور پر بزدل جانور کہا جاتا ہے مگر جنگل میں جھنڈ کی شکل میں گیدڑ انسانوں پر حملہ کرنے سے نہیں کتراتا ہے۔
جندر پر باریاں لگی ہوتی تھیں۔ طویل انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے ہر جندر کے آگے یا قریب میں ایک بڑے پتھر کی جائے نماز ہوا کرتی تھی۔ ساتھ میں بیٹھنے کے لیے سنگی چٹان اور مٹی کا چولہا بنا ہوتا تھا۔ جندر پر مکئی پسوانے والے اس چولہے پر جندر سے آٹا لے کر خود ہی روٹی بنا لیا کرتے تھے۔ ساتھ میں چائے یا قہوہ بنا لیا جاتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہاں آنے والے سب لوگ مل بیٹھ کر دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے۔ لنگالی کس کی طرف سے آنے والی تیز ہواؤں اور کنیر کے بہتے پانی کی آواز رات کے اندھیرے میں بہت خوفناک محسوس ہوا کرتی تھی۔ وہاں بیٹھا ہر شخص بلاؤں، پچھل پیری اور چھلاوے کا خوف محسوس کیا کرتا تھا۔
بجلی، سڑکیں اور ٹریفک جیسی جدید سہولیات ابھی تک اس علاقے میں نہیں پہنچی تھیں۔ ہر شخص کے پاس اپنی لالٹین ہوا کرتی تھی، جو راستہ بھی دکھاتی تھی اور جندر پر روشنی بھی کرتی تھی۔۔۔ رات گئے آٹا پسوانے کا نمبر آتا تھا۔ اس زمانے میں روپے پیسے کی بہت کمی تھی، اس لیے جندر پر مکئی پسوانے کی اجرت بھی اسی مکئی کی شکل میں ادا کی جاتی تھی۔ ادھار آٹا لے کر جو روٹی پکائی جاتی تھی وہ بھی اپنی مکئی پس جانے پر واپس کیا جاتا تھا۔۔
واپسی کا سفر اور بھی مشکل اور پر خوف ہوتا تھا۔ سب ٹولیوں کی شکل میں سفر کرتے تھے۔ دیول، ریالہ اور اوسیاہ کی آبادی بہت ہی کم تھی۔ کنیر کے پاس والے نشیبی علاقے تو گھنے جنگل ہوا کرتے تھے۔۔
بہرحال جاتے ہوئے ایک من مکئی کا تھیلا اٹھا کر جانے والے جب مکئی کے آٹے کے ساتھ گھر واپس پہنچتے تو ساری تھکن اتر جاتی تھی۔ گھر کی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس بہت پر لطف ہوتا تھا۔
آج آپ دوستوں سے ہمارے علاقے کی ایک قدیم صنعت کی یاد شئیر کرتے ہوئے اپنے والد صاحب کی بہت یاد آ رہی ہے۔ اپنے گھر والوں کی خاطر میلوں پیدل چل کر مکئی کا آٹا پسوانے والے لڑکے کو آگے چل کر والدین کی دعاؤں اور مالک کے کرم نے اتنا نوازا کہ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں اور عین نوجوانی میں ان کے پاس کراچی میں کنورٹ ایبل سپورٹس کار ہوا کرتی تھی۔ یہ سب ان کی ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔
اللہ تعالی میرے والد مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور تمام دوستوں کے مرحومین کے بھی درجات بلند فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
حبیب عزیز
اوسیاہ، مری
9 اگست 2024