دہشت گرد شہزادہ… ایک تاریخ ایک تاسف
دہشت گرد شہزادہ… ایک تاریخ ایک تاسف
مجید سالک جس مکان میں مقیم تھے، وہ مکان دوسری منزل پر تھا اور نل کا پانی آسانی سے وہاں تک نہیں پہنچتا تھا۔ جگن ناتھ آزاد کے پوچھنے پر سالک صاحب نے بتایا کہ کسی کسی وقت پانی آ جاتا ہے مگر وہ اتنا نہیں ہوتا کہ گھر بھر کی ضرورت پوری ہو سکے اور پھر ساتھ ہی اُنہوں نے بتایا کہ آج کل چند روز سے یہ تکلیف گم ہو گئی ہے، کیونکہ پطرس بخاری آج کل کراچی آئے ہوئے ہیں۔ وہ ہر روز پانی سے بھرے ٹین اپنی موٹر میں رکھ کر میرے لیے لے آتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد دو آدمیوں کی زینے پر چڑھنے کی آواز آئی۔ یہ بخاری صاحب اور ان کے ڈرائیور تھے، جو ہاتھوں میں پانی کے ٹین اٹھائے مکان میں داخل ہوئے۔ آزادؔ نے احتراماً کھڑے ہو کر سلام کیا اور بخاری صاحب پانی کا ٹین رکھ کر ابھی آزادؔ کی طرف متوجہ ہوئے ہی تھے کہ سالک صاحب نے کہا ’’جگن ناتھ تم نے دیکھا کہ اُردو کے کتنے بڑے ادیب اور یو این کے آفیسر ہمارے سامنے پانی بھرتے ہیں‘‘۔ اس پر بخاری صاحب نے فوراً آزادؔ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کی تہذیب بھی دیکھ لو کہ یہ اس کے باوجود بھی شرم سے پانی پانی نہیں ہوئے‘‘۔
سالک، پطرس بخاری اور جگن ناتھ آزاد تو گئے زمانے کے لوگ تھے جو اقدار، اخلاق اور خوش مزاجی میں گوندھے پلے تھے۔ سو ان کی جانے دیں۔ اگر ہم آج کے عہد کی بات کریں تو ہمیں بڑے بڑے بلکہ بہت ہی بڑے بڑے وہاں پانی بھرتے نظر آتے ہیں جہاں پانی پانی ہونا تو دور کی بات ’’آنکھ کا پانی‘‘ بھی مرچکا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک عمومی، معاشرتی روّیہ ہے لیکن جانے کیوں مجھے راجہ انورؔ کی ’’دہشت گرد شہزادہ‘‘ مکرر پڑھتے ہوئے اس احساس نے چند دن سے یوں گھیر گھار رکھا ہے کہ باوجود کوشش اور خواہش کے اس سے فرار ممکن نہیں ہو رہا ہے۔ راجہ انورؔ اپنے تئیں اور دوسروں کے کہنے کہانے کے مطابق انقلابی و ترقی پسند سیاسی رہنما اور مفکر ہیں لیکن اگر دیانت، محبت اور ’’بے غرضی‘‘ سے ان کی ’’کھوج کھاج‘‘ کی جائے تو وہ محض ایک ایسا خلاق ذہن ہیں جس کی بنت اور کیمسٹری میں درد مندی، عاجزی، اخلاص مگر ادراک کے سوا کوئی اور دھاگہ اور عنصر شاید ہی برتا گیا ہو۔ بھلے وقتوں میں اونچے قد اور ’’منگول نما‘‘ مونچھ رکھنے والا یہ شخص دکھنے میں تو پہاڑ پھوٹوار کا آڑا ترچھا راجہ ہی لگتا تھا لیکن نشست برخاست، مجلس، محفل اور گفتگو کچہری کے بعد اس کا جو تاثر اُبھرتا بلکہ سنورتا لشکتا سامنے آتا وہ ایک فقیر منش، آزاد فکر ’’ماسیر‘‘ سے زیادہ ململیں ہوتا تھا۔ راجہ انور کلرسیّداں، چوک پنڈوڑی کے باسے درکالی شیر شاہی میں جما پلا۔ پنجاب یونیورسٹی سے تربیت، شہرت اور سیاست ہتھیائی، ایوان اقتدار سے ہوتا ہوا لمبا ‘بن باس‘ کاٹنے چل نکلا۔ اپنے اس سارے سفر میں وہ کچھ ’’کرداروں‘‘ کے سامنے مروتاً ’’پانی بھرتا‘‘ رہا، لیکن صد حیف کہ ان ’’کرداروں‘‘ میں ’’کردار‘‘ کی کچھ ایسی توڑ تھی کہ محبت اور محنت سے بھرے اس کے پانی نے انہیں پانی پانی کیا کرنا تھا، ان کی چشم کی پلک بھی کبھی نم زدہ نہ ہوئی۔ راجہ انور کے ساتھ ہونے والا یہ حسن سلوک ’’دہشت گرد شہزادہ‘‘ کے ورق ورق بلکہ سطر سطر پر یوں عیاں ہے کہ کچھ بھی نہاں نہیں رہا۔ دہشت گرد شہزادہ میر مرتضیٰ بھٹو کی کہانی ہے۔ یہ کہانی اپنے اصل میں ایک تاریخ بھی ہے اور تاسف بھی۔
’’بھٹو کا زوال‘‘ اس کہانی کا اوّلین دروازہ ہے جہاں سے قاری جب داخل ہوتا ہے تو اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی ’’دھماکہ چوکڑی‘‘ کے وہ منظر سامنے آتے ہیں جو عمومی آنکھ سے ہمہ وقت اوجھل ہی رہتے ہیں۔ داستان جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بطور آرمی چیف انتخاب، اس کے محرکات سے شروع ہوتی ہوئی ذہین، فطین ذوالفقار علی بھٹو کے الجھے ہوئے فیصلوں تک جاتی ہے۔ راجہ انور اختصار سے بھٹو صاحب کی دھماکہ خیز آمد، ان کے ساتھ اپنے تعلق کی ابتداء کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے پی این اے کی تحریک اور اس کی کوکھ سے نئے مارشل لاء کے وجود پذیر ہونے کا قضیہ سناتے ’’النصرت‘‘ کے قیام تک آتے ہیں۔ یہاں سے بات بھٹو کی سزا کے بعد ’’کابل کی جدوجہد‘‘ تک جاتی ہے۔ اس سے پہلے بھٹو کی رہائی کے لیے ’’جسموں کے چراغ‘‘ کے سرنامے کے تحت وہ المیہ بیان کیا جاتا ہے جو بلاشبہ بے مثال ہے کہ آٹھ بے نام تو نہیں لیکن کم نام جیالے عجب محبت سے بھٹو کے پیار پر قربان ہو جاتے ہیں۔ پروانے جل مرتے ہیں لیکن آگ بجھتی ہے یا کوئی پانی پانی ہوتا ہے۔
بھٹو اور پھر بھٹو خواتین کے ساتھ پوری ایمانداری سے کھڑا رہنے والا راجہ انور، اب مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کے ساتھ کابل میں موجود ہے۔ وہ ڈیڑھ سال تک بہم ایک ساتھ رہے۔ ایک چھت کے نیچے، ایک سوچ لیے بساط بھر لگے رہے۔ ان دنوں جب مرتضیٰ بھٹو سیاسی جدوجہد کے بجائے عسکری کارروائیاں ڈالنا چاہتا تھا تو راجہ انورؔ اپنی سیاسی فراست کے باعث اسے روکتا رہا۔ وہ اسے سیاسی اعمال کی جانب راغب کرتا رہا لیکن اس کی محنت محض اکارت نہیں گئی بلکہ بالکل ’’بے فضول‘‘ رہی۔ یہ وہ عہد تھا جب روسی فوجیں افغانستان میں در آئی تھیں۔ نور محمد تزکنی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور نجیب اللہ باری باری کم زیادہ وقت کے لیے افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوتے گئے۔ ان حالات میں مرتضیٰ کو افغانستان اور کہیں نہ کہیں شام، لیبیا اور پی ایل او سے معاونت ملتی رہی۔ مرتضیٰ بھٹو کی پی ایل اے اگرچہ آزادکشمیر کی ’’المجاہد‘‘ نما فوج تھی مگر اس کا ہوا اور ’’ڈراوا‘‘ بین الاقوامی حالات اور علاقائی صورت حال کے تال میل سے بنتا بندھتا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو اس آرمی کا چیف تھا تو شاہ نواز بھٹو اس کا انٹیلی جنس ہیڈ۔ مٹھی بھر اس کا حصہ تھے جو کسی بھی مناسب ترتیب اور رہنمائی کے بغیر پاکستان آئے اور حکومتی جبر کا شکار ہوتے رہے۔ ’’مرتضیٰ کی بدحال فوج‘‘ انہی حالات کا بیان ہے۔ اب کہانی ’’ہندوستان سے رابطے‘‘ تک آتی ہے۔ اس کے بعد وہ مقام آ جاتا ہے جب بھٹو کا مشیر، جیالا اور بھٹو خواتین کا قابل بھروسہ اسپیچ رائٹر جس نے ایکشن کمیٹی کو ملک بھر میں زیرزمین حکمت اور خاموشی سے منظم کیا تھا۔ مرتضیٰ کے ہاتھوں سزا کا حقدار ٹھہرتا ہے اور پل چرخی جیل میں قید کر دیا جاتا ہے۔ ویسے بات محض قید تک نہیں رہتی، اس کی قبر بھی کھود دی جاتی ہے اور سزائے موت کا فیصلہ بھی سنا دیا جاتا ہے کہ
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
راجہ انورؔ تین سال سے کچھ زیادہ یا کم پل چرخی میں گزارتا ہے۔ پل چرخی افغانستان کا سب سے ہیبت ناک اور تکلیف دہ قیدخانہ رہا ہے جہاں اپنے اپنے وقت میں حکومت مخالف لوگوں کو بے پناہ اذیتیں دی جاتی رہی ہیں۔ راجہ انورؔ کئی دوسرے لوگوں کی طرح کسی بھی وقت مرتضیٰ کی سوچ اور گولی کا شکار بن سکتا تھا لیکن قدرت شاید اس پر مہربان تھی کہ وہ بین الاقوامی سوشلسٹ تنظیموں کے احتجاج اور رابطوں کے باعث رہائی پا گیا۔ حالانکہ مرتضیٰ بھٹو جانے کیوں اس کی موت کی خبریں میڈیا کو جاری کر چکے تھے۔ ایسی ہی ایک خبر سننے کے بعد راجہ انورؔ کی ماں صدمے سے موت کی وادی میں جا اتریں اور سالوں بعد جب وہ ربّ کے کرم سے اپنے آبائی گاؤں آیا تو اسے اپنی ’’بے‘‘ ملی نہ ’’جی‘‘، بس ان کے نام کے مٹی کے ڈھیر تھے اور ایک شہر خموشاں…
ہاں تو دوسری طرف ’’مرتضیٰ کی پیش قدمی‘‘ جاری رہی اور ’’طیارے کا اغواء‘‘ ہوا۔ کابل ایئرپورٹ پر جب پی آئی اے کا طیارہ اترا تو اس کے ہائی جیکر تین تھے۔ سلام اللہ ٹیپو، ناصر جمال اور ارشد۔ اس باب میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جو اسی اعصاب شکن معرکے کے سارے راز کھول دیتی ہیں۔ یہاں سے طیارہ دمشق جاتا ہے اور پھر جنرل ضیاء امریکن دباؤ کے تحت ’’معاملات طے‘‘ کرتے ہیں کہ اس طیارے کے مسافروں میں کچھ امریکن بھی تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ’’الذوالفقار‘‘ سامنے آئی۔ الذوالفقار مرتضیٰ کا خواب بھی تھا اور ایک سراب بھی، جو بعد میں شاید اس کے لیے عذاب بنا۔ الذوالفقار نے ازاں بعد جنرل ضیاء پر دو میزائل حملے بھی کیے جو ناکام گئے۔ بہرحال بہت سی پرتشدد کارروائیاں جن میں بھوپال کا قتل، خواجہ صفدر کے گھر حملہ، چوہدری ظہور الٰہی کا قتل، پوپ کے مجسمے میں بم دھماکہ اور بہت کچھ اور جو اس تنظیم کے ’’کریڈٹ‘‘ پر آئیں۔
وقت گزرا، بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں۔ مرتضیٰ واپس وطن آئے لیکن یہاں بھی ان کے ’’مزاج‘‘ نے رنگ میں بھنگ ڈالے رکھا اور پھر 70 کلفٹن کے سامنے مرتضیٰ اپنے جانثار ساتھیوں سمیت موت کی وادی میں اتر گیا۔ مرتضیٰ کے جانثار ساتھیوں میں سے اکثر کا تعلق ’’سپاف‘‘ سے تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ بے جگری کے ساتھ اس کے ہم سفر رہے اور پورے اعتماد سے اس پر اپنی جانیں نچھاور کر گئے۔
’’دہشت گرد شہزادہ‘‘ ایک تاریخ ہے، ایک ایسی تاریخ جو ہمیں اسی معاشرے کے متمول افراد اور صاحبان اختیار کا ’’مائنڈ سیٹ‘‘ بتاتی جاتی ہے کہ ان بڑے لوگوں کے لیے ان کا ’’ذوق‘‘ اور ’’سوچ‘‘ سب سے اہم ہوتے ہیں اور کارکن اور جانثاران بے حد غیر اہم سے کردار… النصرت، ایکشن کمیٹی، پی ایل اے اور الذوالفقار کے باب میں بھی یہی ہوا اور بار بار ہوا تو ساتھ ہی پی پی پی بھی اسی عمل کا شکار بلکہ ’’شاہکار‘‘ رہی ہے۔ راجہ انور، جیسا ذہین فرد ہو یا سلام اللہ ٹیپو جیسا ’’بانکا‘‘ ایاز سموں ہوں یا پرویز شنواری یا پھر جل مرنے والے پروانے ہوں یا کوڑے کھانے، پھانسی چڑھنے اور طویل قید بھگتنے والے کارکنان، سبھی کو ’’ایک ہی آنکھ‘‘ سے دیکھا اور ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے کہ ’’کہیں‘‘ یہ سمجھا جاتا ہے وہ محض اتنا ہوتا ہے کہ ’’وہ جو کرتے ہیں، مرتے ہیں، یہ ان کا فرض‘‘ ہے اور کسی بڑے کا ’’قرض‘‘ جو وہ اور پیچھے ان کی نسلیں ادا کرتی رہتی ہیں۔
میر مرتضیٰ بھٹو جو ایوانِ وزیراعظم میں ایک ہمدرد مربی اور خوش اخلاق نوجوان کا تاثر قائم کیے ہوئے تھا، بھٹو کی شہادت کے بعد ایک عجب انتقامی ذہن اور مافوق الفطرت سوچ لیے یوں نمودار ہوا کہ فکر، ذہانت اور سمجھداری کو کبھی پاس نہیں آنے دیا۔ ’’دہشت گرد شہزادہ‘‘ کا ورق ورق متذکرہ بالا تاثر کو مزید گہرا کرتا ملتا ہے۔
راجہ انورؔ اس خونی طویل اور بھیانک کھیل کا ان کہا کردار بھی رہا اور تماشائی بھی… ایک ایسا تماشائی جس نے بہت قریب سے وہ سب دیکھا اور سمجھا جو عام آنکھ کے لیے دیکھنا شاید ممکن نہ تھا۔ ان کی بیان کردہ کہانی پاکستانی سیاست کے ایک اہم باب کی تاریخ بھی ہے اور ایک تاسف بھی کہ کاش سیاست جسے کبھی ’’عبادت‘‘ کہا مانا جاتا تھا میں درک اور فہم رہبر کر لیا جائے تو شاید نتائج مختلف اور بہتر ہوں۔ ’’دہشت گرد شہزادہ‘‘ میر مرتضیٰ بھٹو کی شخصیت، ان کے مزاج اور انداز کی تفہیم کے لیے ایک ’کلید‘ ہے۔
یہ بھٹو خاندان اور میربابا کے لیے ایک رجز بھی ہے اور مرثیہ بھی۔ یہ شہر آشوب بھی ہے اور نوحہ بھی۔ اس کی تخلیق میں درک بھی ہے اور درد بھی۔ اسے راجہ انور نے پوری مہارت مگر دور دل میں چھپی محبت سے نکھارا نتھارا ہے۔ راجہ انور کی یہ تخلیق، ان کی فنی چابکدستی کا بہتر نمونہ ہے۔ ان کی زبان سہل رواں اور عام فہم ہے تو ’’کہانی‘‘ میں روانی بھی ہے اور تسلسل بھی۔ اس کی کڑیاں بہم جڑی ہوتی ہیں اور ایک دیدہ زیب لڑکی کی صورت رکھتی ہیں۔ مجموعی طور پر اہم سیاسی و تاریخی موضوع پر لکھی یہ تصنیف موضوع سے انصاف کی بہترین مثال ہے اور بے حد معلومات افزاء بھی ہے۔
ڈاکٹر محمد صغیر خان (راولاکوٹ)