دونوں کو ہی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔ مطیع الرحمٰن عباسی کے نویں یوم وفات پر

پروفیسرجاویداقبال گورنمنٹ ڈگری کالج ساہلیاں
دھیر کوٹ آزاد کشمیر

ہمارے دل سے یہ شرمندگی نہیں جاتی
تو چلا گیا ہے کیوں زندگی نہیں جاتی
وقت رخصت وہ اداسیاں بکھیریں تو نے
ہم سے اجڑی ہوئی بستی نہیں دیکھی جاتی

مطیع الرحمن عباسی کی رحلت کی خبر پر میں دوستوں کے ایک گروہ کے ہمراہ جب ان کے گاؤں (بانڈی بیروٹ)  میں داخل ہوا تو بے ساختہ انہی کے شعر زباں پر جاری ہو گئے۔ محسوس یہ ہوتا تھا کہ انہوں نے زندگی ہی میں اپنی موت کی منظر کشی ، ان شعروں سے کر ڈالی تھی۔

ان کا یوں بچھڑنا ، اک شخص سارے شہرکو ویران کر گیا”  کا مصداق ثابت ہو رہا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار، ہر دل افسردہ۔۔ گویا مرنے والا ہر ایک کا عزیز از جان تھا۔ بیروٹ، پھگواڑی، عباسیاں ،ساھلیاں،د ھیرکوٹ، مری اور دیگر علاقوں کا ایک جم غفیر ، غم کی تصویر بنے انہیں آخری سفر کے لیے الوداع کر رہا تھا۔ ایک قیامت تو تھی جو بپا ہو گئی تھی۔

نمازجنازہ کے بعد جب ان کا آخری دیدار کیا تو”تبسم بر لب ِاوست” کی کیفیت کو پایا تب میں نے جانا کہ جانے والا بڑی شان سے گیا ہے۔ میں نے سنا۔۔۔ دل کے کانوں سے کہ وہ کہہ رہے تھے” قیامت کو ملیں ِگے”۔ مجھے کچھ غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا، لیکن کیاہو سکتا تھا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جانے والے کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا قیامت برپا کر چلا ہے لیکن تسلی دینا، چاہے جھوٹی ہو کہ سچی وہ اپنا فرض سمجھتا ہے۔ لوگ مٹی ڈال رہے تھے اور میں اپنے خیالوں میں گم تھا۔تھوڑی دیر گزرے گی کہ ایک اور گنج گراں مایہ خاک لیئم کے سپرد ہونے والا ہے۔ میں دکھ کو آہستہ آہستہ چکھ رہاتھا ،چھوٹے چھوٹے گھونٹوں سے ، بڑا گھونٹ اوروہ بھی کڑوے کا، مجھ میں اتنا حوصلہ کہاں ، اسی لمحے کسی نے چپکے سے سرگوشی کی:

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی

میں ابھی چونکا ہی تھاکہ پھر آواز لگائی گئی:
فرشتہ موت کاگو چھوتا ہے بدن تیرا
تیرے وجودکے مرکز سے دور رہتا ہے

میں یادکرنے لگا کہ جانے والا درودشریف پڑھتے پڑھتے رخصت ہوا تھا اورایسے لوگ مر کربھی مرا نہیں کرتے ،وہ تو گویا سو گیا تھا ،مصطفی کہتے کہتے اور ایک دن صل علی کہتے کہتے اٹھ کھڑا ہوگا ۔بس اب کیا تھاصدمے کی دھند چھٹ گئی۔ میں” گور پیا کوئی ہور ”کا نعرہ مستانہ لگاتے ہو مجمع سے نکل کھڑا ہوا۔ مجھے مٹی ڈالتے لوگوں پر بہت ترس آرہا تھا کہ وہ جس کا ماتم کررہے، جسے دفن کر رہے تھے وہ تو زندہ تھا وہ تو مرا ہی نہ تھا۔ بیچارے ، حقیقت ناشناس:!!

ہو اگر خود نگر وخود گیر و خودگِیرَد خودی
یہ ممکن ہے توموت سے بھی مر نہ سکے

میں لوگوں سے ایک طرف ہٹ کرغم کی دھوپ سے بچنے کے لیے مطیع کی یادوں کے سائے میں کھڑاہو گیا، میں سوچنے لگا ان کی خود نگری کے بارے میں ،خود نگری ہی کا دوسرا نام معرفت ہے کہ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا، میں ان کی معرفت کا قائل ہونے لگا ان کے شعریاد آ رہے تھے:

صنوبر پھول اور خوشبو چھپا بیٹھا ہے سب میں تو
نہ میں عباس نہ میں یوسف اتارو مت مرے بازو
نگاہ خاص سائیں کی کہ ہے دل محوِاللہ ھو
اگر ہاری نہ ہل جوتے اجڑ جائیں یہ کاخ و کوُ

ان کے یہ شعر حقیقت شناسی پر دال تو ہیں ہی پرآخری شعر بتاتا ہے کہ یہ صرف خالق ہی کے واقف نہیں مخلوق سے بھی آگاہی رکھتے ہیں ۔یہ وہ یک رخا صوفی نہیں ہے جو آسمان سے اوپر کی بات کرتا ہے یا زمیں کے نیچے کی بلکہ یہ آسمان سے نیچے اور زمین کے اوپر یعنی دنیا کی بات بھی کرتا ہے۔ وہ اپنی دنیا آپ بنانے کے قائل تھے ۔روایت سے انحراف جیسا کہ اکثر ان جیسے لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں بھی تھا ۔

طے شدہ باتوں کی طے شدہ پیروی کیے جانا ان کی سرشت میں نہ تھا۔ اسی خاطر ایک عمر وہ دنیا سے لڑتے بھی رہے یا دنیا ان سے لڑتی رہی ۔وہ دنیا کی مانتے بھی تھے مگر کچھ ،ساری ماننے کے وہ قائل نہ تھے اور دنیا اس کے بغیر راضی کب ہوتی ہے۔ ایسی تابعداری تو ان کے نزدیک دنیا کو خدا مان لینے کے مترادف تھی:

ساری باتیں نہ مانا کر اس کی
دیکھ دنیا خدا نہ ہو جائے

لیکن اس ذرا سی آزادی کو بھی دنیا بغاوت سمجھتی ہے سو ان کا جھگڑا لگا رہا ۔موضوع ِنزاع بدلتا رہا ،وہ کبھی دین کی وجہ سے لڑے ،کبھی دل کی وجہ سے اور کبھی دلبر کی وجہ سے، ہار کبھی نہ مانی، نقصان شاید بہت کیا ،اپنا بھی اور دنیا کا بھی ،سود و زیاں جیسا کہ بزرگوں نے کہا ، کاج بنجارے کا نہیں سو ان کا بھی نہ تھا، کہتے تھے:

وہ مرا ساتھ کیا نبھائے گا
فکرِ سود و زیاں کی زدمیں ہے

1396051614341446811590344 1 jpg

پہلو میں دل تو سبھی رکھتے ہیں پروہ دل ِزندہ رکھتے تھے۔روح خدا آشنا ،ذہن رسااور جسم متحرک ،کچھ کر گزرنے کی دھن میں رہتے۔ زندگی کے ہر میدان میں ‘طبع آزمائی’ کی کبھی بچوں کوپڑھایااور کبھی بڑوں کو ،کبھی مارکیٹنگ کے میدان جا پھنسے اور کبھی تعمیرات و عمارات کے دھندے کیے ،کبھی ادبی بزم آرائیوں میں جاکودے، شاعری سے دل جلایا اورافسانے سے دل بہلایا، کبھی سکول کھولاتو کبھی کالج، لگتاتھا وہ بہت کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ان کی سیمابی طبیعت اور شاعرانہ مزاج نے انہیں کچھ کرنے نہ دیا ۔
وہ چاندنی رات مجھے خوب یاد ہے، رضوان ہوٹل لانڈھی کے سامنے، رب ٹیکسٹائل کے مزدورں کے لیے بچھی جہازی سائز کی چارپائیوں پر، وہ اور میں ، عابد علی عابد سے ہندکو شاعری سن رہے تھے۔ تجاوزات کے خلاف اس کی نظم ’’ ایہہ توُ ڑا لوپاڑا نیں کہ مَلی بیٹھا زیں ‘‘(یہ تیری جاگیر نہیں کہ اس پر قبضہ جمائے بیٹھے ہو)انہیں بہت بھائی اور کئی بار سنی۔ پھر گفتگوکا رخ ان کی شاعری سے ہوتا ہوا ان کی ذات کی طرف مڑ گیا میں نے کہا ’’ آپ کیا پراپرٹی بنانے کے چکر میں لگے ہیں، شاعری سے لوَ لگائیں ،افسانے لکھیں، ادبی محفلیں جمائیں ،کسی تنظیم کا ڈول ڈالیں اور ادبی رسالہ نکالیں ،یہ آپ کس چکر میں پڑے ہیں،، مسکرا کر کہنے لگے :

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

پھر فیض کے شعر سنانے لگے:

وہ لوگ بڑے خوش قِسمت تھے
جو عِشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام اُلجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادُھورا چھوڑ دیا

اور پھر آج ۔۔۔۔ وہ واقعی دونوں کو بلکہ سبھی کو چھوڑ کر چل دیئے۔ لوگ قبر پر مٹی کا ڈھیر لگا چکے تھے۔ میں لوگوں کو ان کی قبر کے پاس چھوڑ کر ساہلیاں کی طرف چل دیا ،بالکل اسی طرح خیالوں میں گم جیسے ’’ پورب دیش کا پھیری والا ‘‘ چلا جا رہا تھا۔

(یہ مضمون سہ ماہی شعروسخن مانسہرہ،جلد نمبر ١٥،شمارہ نمبر٥٧،جنوری تا مارچ٢٠١٤ ،میں شائع ہوا)

ایک تبصرہ چھوڑ دو