kohsar adart

"دن دن ماموں” ۔۔زندگی سے لڑتا بھڑتا ایک انوکھا کردار

ام عزوہ

دندن(dindin) ماموں فوت ہوگئے۔۔۔۔ہیں۔۔۔دندن ماموں فوت ہوگئے۔۔

قریبی مسجد سے اعلان نے کئی سماعتوں پر ہتھوڑے برسا دیے۔مسجد سے گونجتی آواز ہوا کے دوش پر پورے محلے میں بکھر گئی۔۔۔ دل کا مریض ہونے کے باوجود لوگوں کے لیے زندہ دل دندن جن کا اصل نام محمد علی تھا،کے مرجانے کی خبر تکلیف دہ بھی تھی اور کسی حد تک یقین نہ آنے والا احساس بھی۔

ایمبولنس کی آواز پر میری امی اور بھابھی نے بھی جھانکا تو دیکھا تھا وہ اسٹریچر پر بیٹھ کر جا رہے تھے۔مطلب بجائے بے سدھ ہو کر لیٹے ہوئے وہ پوری گلی پر طائرانہ نگاہ دوڑاتے ہوئے گئے۔۔آخری نگاہ۔۔۔اور پھر واپسی بے جان لاشے کی صورت ہوئی۔۔زندہ دل آدمی ۔ہنسے تو پوری گلی گونج اٹھے۔اور چیخیں تو اپنے گھر کے بچوں کے ساتھ ساتھ باقی گھروں کے بچے بھی دبک جائیں۔مائیں ڈرائیں کہ ابھی تمہیں انکل محمد علی کے حوالے کرتی ہوں۔بچوں میں ان کی دہشت اور بڑوں میں ان کی شرارت بھری مستیاں مشہور تھیں۔کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے،میں عاسل اور عزوہ کے ساتھ کہیں جا رہی تھی، وہ اپنے دروازے کے باہر کرسی ڈالے بیٹھے تھے۔ کافی کمزور رنگت پھیکی اور آنکھوں کے نیچے سوجن۔۔۔ہمارا بچپن بھی ان کی دھاڑ کے خوف میں گزرا ہے تو ایک جھجک سی تو تھی۔ لیکن ہم نے ان کے قہقہے بھی دیکھے ہوئے تھے۔ ہمت کر کے سلام کیا طبیعت پوچھ لی۔۔خوش ہوئے ۔۔بچوں کی طرف دیکھا تو پوچھا "تمہارے بچے ہیں؟” میں نے کہا "جی” تو فرماتے "ارے یہ کیسے بچ گئے میری دہشت سے وہ بھی اسی محلے میں رہتے ہوئے۔۔”بیٹے کو قریب بلایا۔۔ "ادھر آ ۔۔” کان پکڑ لیا۔۔ لازماً کوئی نکا جیا ظلم کر بیٹھتے کہ ہمارے احتجاج نے راستہ روک دیا۔۔۔ "ماموں نہیں۔۔یہ ہماری جیسے بچے نہیں ہیں۔۔نا کیجیے” ۔

شکر ہے خیالات کا بدلاؤ یا کچھ بھی۔۔، چھوڑ دیا انہوں نے ،اور ہنسنے لگے ہم بھی الوداعی سلام کر کے اپنے چوزوں کو لے کر رفو چکر ہوئے۔بس وہی آخری ملاقات تھی اس کے بعد پھر ایک دو دفعہ وہی دور سے کرسی پر بیٹھے دیکھا۔ یا ان کا کوئی چلبلا قہقہ ابو کے دروازے تک پہنچا۔ حالانکہ ابو کے گھر سے ان کے گھر ٹوٹل چھ گھروں کا فاصلہ ہے۔ جوانی میں ہی محمد علی ماموں کے ساتھ ان کی زندگی کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہوئی تھی کہ عین بارات والے دن سسرال والوں نے دلہن بدل دی تھی۔
محمد علی ماموں کے امی ابو لکھنؤ کے طرز کی زندگی گزارتے ہمارے محلے کے معزز لوگوں میں شامل تھے۔۔۔ہم چھوٹے سے تھے ان کے گھر بھاگ بھاگ کر جاتے۔ بڑا سا سجا سجایا گھر ،کھیلنے کے لیے کھلا صحن ،ہم بچوں کو خوب مزہ آتا ۔جب تھوڑے بڑے ہوئے تو ماموں کے امی ابا ایک ایک کر کے فوت ہو گئے اس کے بعد یوں لگا محمد علی ماموں آزاد ہو گئے ہیں۔۔بیوی پر شور کرتے۔ بچوں کی ایک خطا پر خوب دھنائی کرتے۔ اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے بچے جتنا مار کھاتے اسی قدر شرارتی بھی تھے۔کبھی کوئی کارنامہ انجام دے کر آ رہا ہے کبھی کوئی کچھ۔

حیرت ہمیں اس بات پر ہوتی کہ محمد علی ماموں کی بیگم بالکل سادہ اور کسی حد تک اسپیشل خاتون تھیں۔انہیں مرگی کے دورے بھی پڑتے تھے۔کئی بار باہر گلی میں ہی بے ہوش ہو جاتی تھیں
کوئی انہیں موزہ سنگھا رہا ہوتا تھا کوئی جوتا۔ ہمیں بچپن سے ہی ان پر ترس آتا تھا۔اور ساتھ ہی ماموں کی بے جوڑ شادی دیکھ کر حیرت ہوتی کہ کہاں ماموں اتنے خوش شکل لمبے چوڑے اور زندہ دل اور کہاں مامی۔۔ان کے بالکل برعکس ۔
ایک دن خالہ اور امی کے درمیان ان کے حوالے سے بات چیت سن کر یہ انکشاف ہوا کہ شادی سے پہلے گھر والوں کو اچھی خاصی خوبصورت لڑکی دکھائی گئی۔ اور عین نکاح کے وقت لڑکی کے گھر والوں نے اس لڑکی کی بجائے اپنی ذہنی طور پر کمزور بچی کو گھونگٹ ڈال کر بٹھا دیا۔اور نکاح اسی سے پڑھا دیا گیا۔رخصتی کے بعد جب حجلہ عروسی میں ماموں نے بڑی محبت سے جوں ہی گھونگٹ اٹھایا، حیرت اور غم کا پہاڑ ان پر ٹوٹ پڑا۔۔بس پھر کیا تھا۔۔ بہت لڑائی ہوئی۔ کافی باتیں کی گئیں۔لیکن لڑکی والے جو کہ لڑکے والوں سے مالی طور پر کہیں زیادہ تگڑے تھے، نے منت سماجت کر کے ماموں کے ابو جی کو راضی کر لیا یوں یہ شادی تو قائم رہ گئی۔ لیکن دو لوگوں کے دلوں میں زہر گھل گیا۔ خاص کر ماموں کے دل میں۔۔وہ بے چاری تو چپ چاپ ماموں کی جلی کٹی سنتی رہتیں۔۔کیا کرتیں بالکل سادہ بندی تھیں۔مامون نکمے ہوتے گئے ۔۔کام کاج میں گھر میں ان کا دل لگتا نہیں تھا۔ زیادہ تر مامی کے گھر والے سپورٹ کرتے۔ فساد انہی کا بویا ہوا تھا وہی کاٹ رہے تھے ۔یوں ہی آڑی ٹیڑھی لڑتے مرتے زندگی گزرتی رہی اور بچے کچھ بڑے ہو گئے ایک کو مامی کے بھائی نے باہر ملک سیٹل کرا دیا ۔۔یوں کچھ گھر کا نظام چلنے لگا۔ زندگی کے داؤ پیج سلجھاتے، کبھی خود الجھتے کب ماموں دل کے مریض ہوئے ،نہیں پتہ چلا۔کب ماموں کو وہ بیکار سی عورت اپنی لگنے لگی اس کا بھی انہیں احساس نہ ہوا کہ کب اندر وہی عام سی مسکین سی عورت ان کے لیے ناگزیر ہو گئی۔۔اکثر کہتے "مجھے کچھ ہو گیا تو تیرا کیا بنے گا۔”
اور پھر واقعی ادھیڑ عمری میں محلے کا وہ زندہ دل آدمی چلا گیا۔وہی سادہ عورت اس کے سرہانے آنسوؤں سے دوپٹہ بھگوتی رہی۔۔مجھ سمیت محلے کا ہر فرد ان کی میت کے سامنے اشکبار انکھوں کے ساتھ کھڑا اپنے انداز میں سوچ رہا تھا۔۔۔کچھ لوگ زندگی کے سٹیج پر بالکل مختلف کھیل کے ساتھ آتے ہیں۔۔وہ کھیل جو بالکل پھیکا ہوتا ہے۔۔اسی لیے کہتے ہیں مقدر کے کھیل نرالے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More