دلی کا آخری نایادگار مشاعرہ
ابوبکر قدوسی

دلی بجھ رہی تھی میرے دل کی صورت ،
ظل سبحانی بہادر شاہ ظفر تھکے تھکے قدموں سے امید و بیم کی کیفیت میں لال قلعہ چھوڑ کر ہمایوں کے مقبرے میں پناہ گزیں ہو چکے تھے۔
سب امیدیں بخت خان پر تھیں کہ فرنگیوں کو دلی سے نکال بھگاتا کہ گنگا کا پانی پھر سے گوریوں کا روپ سنگھار دیکھے ، کوئی بچھڑی رادھا پیا ملن ناچے ، کوئی گوری گھونگھٹ کھولے، شرمائے اور پھر چھپ جائے ۔۔۔۔۔
دکھی سے شاہ کو دیکھ کر میرزا جہاں دارا نے دل بہلانے کو مشاعرہ کرنے کی صلاح دی ۔۔۔۔ بادشاہ کے ہونٹوں پر جیسے پھیکی سی مسکراہٹ ابھری اور دور افق میں ڈوبتے پنچھی کی مانند معدوم ہو گئی ۔۔۔۔۔
لیکن تکرار سے طلب مشاعرہ پر آمادگی میں سرہلا دیا کہ
دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے
یاد جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے
میرزا نوشہ یعنی غالب بھی چلے آئے ، لاٹھی ٹیکتے بوڑھے ذوق بھی کھانستے ہوئے آ گئے۔ ۔۔۔۔
مومن کچھ ناراض سے تھے لیکن چلے آئے ۔
شمع جلائی گئی ، اور شمع سے اٹھتا دھواں جیسے کسی بیوہ کی مانگ کا اجڑا سیندور ۔۔۔۔۔۔۔کہ کھلا اور بجھ گیا ہو ۔
دلی بجھ رہی تھی اور مشاعرہ سلگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
ایک کے بعد ایک غزل ہو رہی تھی سب ہی جیسے فی البدیہہ کہہ رہے تھے ۔۔۔۔شعر تو نہ تھے خون جگر تھا کہ تیر نیم کش کے سبب ٹپک ثپک کر بہہ رہا تھا ، رکتا بھی نہیں چلتا بھی نہیں ۔۔۔۔۔
آج جیسے ہوائیں بھی رو رہی تھیں ۔۔۔۔یا پردوں کے پیچھے کوئی کنیا گنگا کی جدائی کے خوف سے سسکیاں لے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
شمع جیسے بجھنے کو تھی کہ غالب اٹھے اور غزل سرا ہوئے ۔
” تیرے ہوتے ہوئے موم بتی بجھائی کسی اور نے
کیا خوشی رہ گئی تھی جنم دن کی میں کیک کیا کاٹتا ”
مطلع ہی غصب ڈھا گیا ، محفل یوں بھڑکی جیسے تان سین نے راگ اگنی سے آگ لگا دی اور جو تھا سب جل گیا۔۔۔۔۔
مؤمن خان مؤمن تڑپ کر اٹھے اور بولے
میرزا نوشہ ۔۔۔۔او میرزا نوشہ
آج قرض ادا ہو گیا ، وہ جو آپ نے اس شعر کو لیا تھا نا اپنے دیوان کے بدلے
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
بس قرض ادا ہو گیا ۔۔۔ مومن وجد میں ایک ٹانگ پر ناچ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
مینوں ہیر نہ آکھو کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ ،
میرزا کا ماتھا چوما ، اور تڑپ تڑپ بادشاہ کو داد طلب نگاہوں سے دیکھا اور کہا حضور کچھ تو ارشاد ہو کہ
لوگ ،
کہتے ہیں کہ آج غالب غزل سرا نہ ہوا
بادشاہ نے بجھتی موم بتی کو نم آنکھوں سے دیکھا ، اور آگے بڑھ کر ہاتھ سے گل کیا ، شکستہ دلی سے کیک کو ٹھوکر ماری اور مقبرے کی فصیل کو بھاگا۔۔۔۔
اور ہاتھوں کا بھونپو بنا کر آواز لگائی ۔۔۔
"فرنگیو ! آ جاؤ ۔۔۔۔۔ آ جاؤ کہ اب جینے کی تمنا نہیں ”
بادشاہ نے چیخ ماری اور سر میرزا کی گود میں رکھ کر جان ، جان آفریں کے سپرد کر دی ۔۔۔یہ رنگون جانے والی کہانی تو کسی نے بعد میں اختراع کر دی ہے ۔۔۔۔۔ہاں جی