دائرے سے پرے۔۔۔ ۔۔۔۔گلناز کوثر۔۔۔۔۔

دو گھڑی پیشتر میں نے اِس جسم میں آخری سانس لی
زندگی سے بھرا آخری پل جیا تھا
جسے اب زمانہ فسردہ نگاہوں سے تکتا چلا جا رہا ہے
میں کیسے کہوں درد کی آخری لہر میں کیسی مہکار تھی
سرد نوکیلی ہچکی سے آگے مسلسل سکوں تھا
میں اب بادلوں اور ہواؤں کے مانند آزاد ہوں
دو گھڑی پیشتر کس قدر شور تھا، کس قدر بوجھ تھا
حسرتوں اور خوابوں کے لشکر مری جان روندے چلے جا رہے تھے
مجھے زندگی سے شکایت نہیں تھی
مگر ایک کچلے ہوئے دن سے ملکر "بہت خوش ہوں” کہنا مرے واسطے کتنا دشوار تھا ۔۔۔۔
کیسا آزار تھا ایک اندھے کنویں سے محبت کی تلچھٹ اٹھا کر نگاہوں میں بھرنا
وہ دنیا جو وحشت کی مٹی سے گوندھی گئی تھی
اسے ایک جنت بتانا مجھے کیوں سکھایا گیا تھا
مجھے کیوں ڈرایا گیا تھا کُھلے آسمانوں کے پیچھے چھپے قہر سے
ہر نئے دن کی تازہ ہدایت تھما کر وہ کہتے تھے جائو جیو اور جی کی کرو
اور جی کی خبر کس کو تھی
دو گھڑی پیشتر میں نے اس جسم میں آخری سانس لی
جس کی ساکت نگاہیں مجھے ایک حیرت سے جاتے ہوئے دیکھتی ہیں
مرے گرد کھینچے ہوئے دائرے سے پرے
اک نئے دن کی پرواز کو۔۔۔۔