خان عبد الولی خان کا اپنی پہلی بیوی تاجو بی بی کو خراج عقیدت
"اگر ولی خان جیل کے اندر فرش پر سو سکتا ہے تو میں اور میرے بچے بھی اسی فرش پر سو لیں گے"
خان عبد الولی خان اپنی بیوی تاجو بی بی کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب “ باچا خان اور خدائی خدمتگاری “میں لکھتے ہیں
پشتو سے ترجمہ۔۔ھمدرد
—————————————————————
1949مارچ کا پہلا ہفتہ تھا ۔مجھے جیل میں خبر ملی کہ میری بیوی تاجو مردان کے ایک ہسپتال میں جان کی بازی ہار گئی ۔زچگی کے دوران ان کے یہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی، ایک ماں کے ساتھ ہی وفات پا گیا اور دوسرا بچہ اسفندیار ولی خان تھا ۔ مجھے اس دن ایسا محسوس ہوا کہ پورا جیل میرے دوست احباب جو میرے ساتھ پابند سلاسل تھے سب کو خبر تھی کہ میری بیوی فوت ہوچکی ہے ۔کیونکہ ان کی وفات کو دو ہفتے ہوچکے تھے ۔ ان کی وفات چودہ فروری کو ہوئی تھی ۔ سب کو خبر تھی مگر غم و الم کی یہ خبر مجھے کوئی نہیں بتا سکا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھ پر جتنی بھی مصیبتیں آن پڑی تھیں ۔ جیل بھی انگریزوں کے زمانے کی جیل سے زیادہ وحشت ناک تھی ۔ میری تمام جائیداد بحق سرکار ضبط ہوچکی تھی۔ میری بیوی اور بچے بے سہارا ہوچکے تھے مگر اس وقت یہ تسلی رہتی تھی کہ تاجو ہے وہ سنبھال لے گی اور حقیقت بھی یہی تھی کہ وہ بہادر خاتون تھی ،میرے قیدو بند کے زمانے میں انھوں نے گھر اور بچوں کو سنبھال رکھا تھا ۔ جب بھی ان کا خط بڑی مشکلوں اور خفیہ طریقے سے مجھے ملتا ۔ انھوں نے خط میں ہمت اور حوصلے کی ایسی باتیں لکھی ہوتی تھیں کہ میرا حوصلہ بڑھ جاتا اور مجھے اطمینان تھا کہ تاجو گھر اور بچوں کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے ۔
خان عبد الولی خان اپنے والد محترم باچا خان کے ساتھ
قیوم خان نے جب میری جائداد کی ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے تو پولیس گھر پہنچ آئی اور گھر کا سامان بھی ضبط کیا ۔ اس کارروائی کے دوران جب پولیس کی نظر جھولے پر پڑی جس میں میری ایک سالہ بچی نسرین سوئی ہوئی تھی تو انھوں نے بچی کو اٹھا کر نیچے پھینکا اور وہ جھولا بھی بحق سرکار ضبط کرلیا ۔ اب گھر کی یہ حالت ہوگئی کہ ایک چیز بھی نہیں بچی, بس دیواریں رہ گئیں ۔ تاجو کے بھائی اور ماں ان سے ملنے آئے اور ان سے ساتھ چلنے کو کہا کہ دیکھو تم پہلے بھی تو اکیلے رہتی تھیں مگر اب دیکھو گھر کا سامان بھی قیوم خان کی پولیس لے گئی ہے ۔ اب ہمارے ساتھ چلو ادھر کیسے رہوگی ۔ تاجو نے انکار کیا اور کہا کہ میں نہیں جاؤں گی میں نہیں چاہتی کہ دشمن خوش ہو کہ ولی خان کو جیل میں ڈال دیا ہے، اب ان کا گھر بھی نہیں رہا ۔ اگر ولی خان جیل کے اندر فرش پر سو سکتا ہے تو میں اور میرے بچے بھی اسی فرش پر سو لیں گے ۔ میں ان کے گھر اور حجرے کو ویران چھوڑ کر نہیں جاسکتی !!میں سوچ رہا تھا میرا کیا میں تو کسی طرح بھی جی لوں گا مگر تاجو تھی ،تو بچوں کی فکر سے آزاد تھا اب ان بچوں کا کیا ہوگا ۔
اس کے بعد مجھے ایک ماہ کےلئے پیرول پر رہائی ملی ۔ میں جہانزیب نیاز( میرا خالہ زاد اور تاجو کا بھائی ) کے ساتھ رجڑ آ گیا ۔ شاہی باغ )( میرا گھر ) مکمل اجڑ چکا تھا ۔ میرے بچے تاجو کی ماں کے پاس تھے ۔ میں نے اپنی ساس بے بے سے درخواست کی کہ اگر اپ اجازت دیں تو میں تاجو کی تابوت کو رجڑ سے شاہی باغ منتقل کرنا چاہتا ہوں ۔ انھوں نے اجازت عنایت کی ۔ ہم جب تابوت کو منتقل کرنے لگے تو تابوت کے اوپر تاجو کا بنارسی جوڑا پڑا ہوا تھا ۔ وہی جوڑا جیسے پہن کر تاجو میرا گھر بسانے آئی تھی اس آرزو کے ساتھ کہ وہ میرے گھر کو چار چاند لگائے گی اور آج اسی گھر سے ہم ان کی لاش کو اسی جوڑے میں منتقل کررہے تھے ۔ ہم نے تو زندگی بھر ساتھ رہنے کے عہد کیے تھے، اب یہ کیا تاجو مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر دوسرے جہاں چلی گئ ۔۔
تاجو کے ساتھ نے مجھے زندگی کے رونقوں سے آشنا کیا تھا اور ان کی موت نے مجھ پر اس دنیا کی حقیقت کھول دی ۔ مجھے وہاں جاکے یہ بھی معلوم ہوا کہ بابڑہ ( پشتون کربلا ) کے دن بھی تاجو جلوس میں شریک تھی اور ان کو ایک گولی بھی لگی تھی ۔ اس دن تاجو نے اپنے دوپٹّے سے زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کی ۔ اس واقعے کے بعد وہ رنجیدہ رہنے لگی تھی جیسے یہ زندگی ان کےلئے بے معنی ہوکر رہ گئ تھی ۔ میرے بچوں کو اب کوئی آسرا نہیں رہا ۔ اب نانا کا گھر ان کا مسکن تھا ۔۔شاہی باغ کا ہنستا مسکراتا گھر اجڑ چکا تھا ۔
ہمدرد ۔