حواس خمسہ اور چھٹی حس کیا ہے؟
میگزین رپورٹ
حواسِ خمسہ‘ علم حاصل کرنے یا کچھ جاننے کے وہ پانچ ذرائع ہیں جن کو The five gateways of knowledge کہا جاتا ہے۔ اس میں چھونا‘ چکھنا‘ سننا‘ سونگھنا اور دیکھنا شامل ہے۔ سائنس انہی پانچ ذرائع سے جاننے کو مستند مانتی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ایک حس کا ذکر کیا جاتا ہے بلکہ مانا جاتا ہے کہ ایک حس اور بھی ہے جسے چھٹی حس کہا جاتا ہے‘ جس کے ذریعے آپ کو کوئی اشارہ یا علم ملتا ہے۔ اس میں کوئی کشف یا پھر خواب میں کسی بات کا علم ہونا شامل ہے۔ آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ مجھے یقین تو نہیں تھا لیکن میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ ایسا کچھ ہوگا۔ اسی سے ملتی جلتی ایک اور بات بھی کہی جاتی ہے‘ جسے چھٹی حس کے برابر مانا جاتا ہے‘ جس سے انسان کوکوئی واقع ہونے کا پیشگی احساس ہو جاتا ہے‘ اس عمل یا امر کو انگلش میں Gut feelings کہا جاتا ہے۔ اس حس کا تذکرہ پانچویں نسل کی جنگ میں ملتا ہے۔ اس جنگ میں لوگوں کی یہ حس ہی مار دی جاتی ہے کہ وہ یہ جان سکیں کہ آیا وہ امن کی حالت میں ہیں یا جنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ اسی طرح ایک ایسی کیفیت بھی پیدا کی جاتی ہے جس میں دوست اور دشمن کی پہچان ختم ہو جائے۔ چھٹی حس کے ذکر کیساتھ ہی چلتے ہیں چھٹی نسل کی جنگ کی طرف۔ اگرچہ اس کا تذکرہ ایک دفعہ پہلے بھی ہو چکا ہے لیکن یہاں اس کی تفصیل میں جانے کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی آپ چھٹی حس کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ہاں! ایک بات کا خیال رہے کہ اس چھٹی نسل کی جنگ کو سمجھنے کیلئے آپ کو چھٹی حس کا استعمال کرنا ہو گا۔
چھٹی نسل کی جنگ
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ جنگ باقاعدہ طور پر تو کسی ملک پر مسلط نہیں لیکن دنیا کے طرزِ زندگی نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ بہت سار ے معاشرے اس چھٹی نسل کی جنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ لوگ اپنی ذات کے ساتھ ہی ایک ایسے مقابلے میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ اس کی شدت کسی طرح بھی ایک جنگ سے کم نہیں ہے۔ اس سے بھی اہم‘ معنی خیز اور بھیانک پہلو یہ ہے کہ آپ اس جنگ کو کسی طور بھی جیت نہیں سکتے کیونکہ یہ جنگ آپ خود سے لڑتے ہیں تو پھر آپ کی جیت کس طرح ہو سکتی ہے‘ دونوں صورتوں میں آپ ہی کی ہارہو گی۔ اس جنگ کا سب سے بڑا مدعا معیشت ہے۔ یہاں اشتراکیت کے بانی کارل مارکس کی ایک بات یاد آ رہی ہے جو اس صورتحال کو مزید آسان اور قابلِ فہم بنا دے گی۔ کارل مارکس کا کہنا تھا کہ دنیا کا ہر شخص شعوری یا لا شعوری طور پر معیشت ہی کے گرد گھومتا ہے۔ اسی بات کو ایک اور طرح سے کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ معیشت کسی کیک کی سب سے بنیادی یعنی پہلی تہہ ہوتی ہے‘ باقی کا سارا ڈھانچہ اسی تہہ یعنی معیشت پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس صورتحال کو پیزا کی مثال سے بھی واضح کیا جا سکتا ہے جس کی سب سے نیچے والی تہہ زیادہ تر لوگ موٹی کھانا پسند کرتے ہیں لیکن ایسے پین بھی مل جاتے ہیں جن سے یہ تہہ پتلی بھی رکھی جا سکتی ہے۔ اب یہاں معیشت کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کہ جس شخص یا قوم کی معیشت کی تہہ موٹی ہو یعنی معاشی حالت اچھی ہو‘ اس کے باقی معاملات بھی ٹھیک رہتے ہیں۔ آج تک دنیا اسی فلسفے یا نظریے پر چلتی آئی ہے۔
اب ہم ایک متضاد دنیا میں داخل ہو رہے ہیں یعنی ہم یہ کہنے لگے ہیں کہ ضروری نہیں کہ معاشی حالت بہتر ہو تو زندگی میں رکاوٹ یا رکاوٹیں نہیں ہوں گی۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ‘پیسہ ہی سب کچھ ہے‘ کا نظریہ اب کمزور پڑتا نظر آ رہا ہے۔ اس بات کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پیسے کی اہمیت کم ہو گئی ہے بلکہ مال و دولت کی اہمیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور غالب ترین امکان یہی ہے کہ بڑھتی رہے گی‘ لیکن اب اس نئے تصور کا کیا کریں کہ مال و دولت‘ گاڑی اور بنگلے کے بعد بھی اکثر لوگ اضطراب اور ہیجان کا شکار رہتے ہیں اور معاملہ اپنی ہی جان لینے پر ختم ہوتا ہے۔ اب معیشت کے اس گھن چکر کا ایک اور زاویے سے احاطہ کرتے ہیں جو یہ بتاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں سب سے پہلے ضروریات آتی ہیں پھر سہولیات اور آخر میں تعیشات کا نمبر آتا ہے۔ پرانے زمانے میں بنیادی ضروریات سے مراد روٹی‘ کپڑا اور مکان ہی تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی میں اتنی زیادہ اشیا آ گئیں جو شروع میں تو تعیشات کا درجہ رکھتی تھیں پھر سہولیات کے درجے پر آگئیں لیکن عجیب ظلم یہ ہوا کہ بالآخریہ اشیا بنیادی ضروریات کی سطح پر آکر زندگی کا ایک لازم جزو بن گئیں۔ یہ فقرہ تھوڑا مشکل بن گیا ہے‘ عین اسی طرح جس طرح انسان کی زندگی ترقی کے نام پر مشکل بن گئی ہے۔ اس بات کو موبائل فون کی مثال سے سمجھتے ہیں۔ موبائل فون جب متعارف ہوا تو یہ ایک تعیش کے زمرے میں آتا تھا‘ تب موبائل فون ایک سٹیٹس سمبل تھا۔ بتاتے چلیں کہ نوے کی دہائی میں موبائل کا ایک کنکشن یعنی سِم پچاس ہزار روپے تک آتا تھا۔ اُس وقت موبائل فون کا نمبر چھ ڈیجیٹ کا ہوتا تھا۔ اُس وقت صرف کال سننے کے تین روپے فی منٹ کے حساب سے موبائل رکھنے والے کو ادا کرنا پڑتے تھے۔ اس کے بعد موبائل فون ایک سہولت کا درجہ اختیار کر گیا اور یہ عام ہونا شروع ہو گیا۔ اب موبائل فون آپ کی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ اب تو موبائل فون کو انسانی جسم کا ایک عضو کہا جاتا ہے۔ باقی حساب آپ خود لگا لیں کہ کتنی ہی اور اشیا ہیں جو اب آپ کی زندگی میں ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہیں لیکن کبھی یہ ایک تعیش کے زمرے میں آتی تھیں۔ اس کی ایک بڑی مثال ایئر کنڈیشنر بھی ہے۔
معیارِ زندگی اور اس کی قیمت
موجودہ دور میں نت نئی ایجادات کی بدولت معیارِ زندگی ایک لحاظ سے بہت اوپر چلا گیا ہے لیکن اس کی قیمت بھی اسی حساب سے بڑھ گئی ہے۔ اب آپ کی زندگی میں کتنی ہی چیزیں ایسی آ چکی ہیں جن میں سے کسی ایک کے نہ ہونے سے آپ کی زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ آپ صرف انٹرنیٹ کے بند ہونے پر پیدا ہونے والی صورتحال ہی کا اندازہ لگا لیں۔ انٹر نیٹ بند ہونا تو دور کی بات ہے‘ اگر آپ کسی دور دراز علاقے میں چلے جائیں تو وہاں موبائل نیٹ ورک کے سگنلز کمزور ہونے پر ہی آپ خود کو ادھورا سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کسی ایسے کاروبار سے منسلک ہیں جو انٹر نیٹ کے ذریعے چلتا ہے تو انٹر نیٹ کی بندش یا کمزور کنکشن کی صورت میں آپ کا باقاعدہ نقصان ہونا شروع جائے گا۔ اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگ جوتے اور کپڑے خریدنے کا بعد میں سوچتے ہیں‘ پہلے انٹر نیٹ کے مہنگے پیکیجز خریدتے ہیں۔ پہلے موبائل فون رکھنے کا واحد مقصد صرف رابطے میں رہنا تھا لیکن اب یہ کاروبار کا ایک اہم ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ موبائل نیٹ ورک کمپنیاں صارفین کا ڈیٹا باقاعدہ فروخت کرتی ہیں جس کے بعد مختلف کمپنیاں صارفین کو اپنی مصنوعات کی فروخت کیلئے پیغام بھیجتی ہیں۔اب بات گفتگو سے بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ اب تو لوگوں نے دو دو موبائل فون صرف اس لیے رکھے ہوئے ہیں کہ ایک نمبر عام لوگوں کیلئے ہے اور دوسرا صرف خاص جاننے والوں کیلئے وقف ہوتا ہے۔ ان ساری باتوں کا حساب لگائیں تو پتہ چلتا ہے کہ صرف معیارِ زندگی ہی بہتر نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ اب اگر آپ زندگی کا لازم جزو بن جانے والی کسی ایک چیز سے بھی محروم ہوں یعنی اس کی قیمت چکا کر اسے خریدنے سے قاصر ہوں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
وقت کا سرمایہ کیسے بڑھے گا
اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انسان کی زندگی خود سے ہی ایک جنگ بن چکی ہے۔ انسان کی زندگی جنگ بنا دینے والی چیز کا نام وقت ہے‘ یعنی وقت ایک سرمایہ ہی نہیں بن چکا بلکہ سرمایے کی سب سے قیمتی شکل بن چکا ہے۔ آپ اپنی زندگی کا معیار بلند رکھنے کیلئے دنیا جہاں کی تمام سہولیات اکٹھی کر لیں گے لیکن وقت کا کیا کریں گے‘ یہ تو ہر شخص کیلئے ایک دن میں 24گھنٹے ہی رہے گا۔ آپ کی زندگی میں جتنی زیادہ سہولیات اور تعیشات ہوں گی‘ اتنا ہی زیادہ آپ کا وقت اُنہیں زندگی میں حاصل کیے رکھنے اور اُن میں بہتری لانے پر خرچ ہو گا۔ ایسے میں آپ اپنے رشتوں ہی سے دور نہیں ہو جاتے بلکہ اپنی صحت اور آرام کیلئے بھی مناسب وقت نہیں نکال پاتے۔ یہی مقام اس چھٹی نسل کی جنگ کی انتہا ہے۔ آپ کی زندگی کی پہلی اور بڑی ترجیح آپ خود ہیں لیکن آپ خود کو بھی پوری طرح میسر نہیں ہو پاتے۔ اس بات کا نچوڑ یعنی اس جنگ کی انتہا یہ ہے کہ انسانی زندگی کو اصل خطرہ اپنی جنگی قسم کی مصروفیات سے ہے لیکن اعلیٰ درجے کی زندگی کیلئے یہ جنگی طرز کی مصروفیات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ لیکن اس بات کا اندازہ صرف چھٹی حس سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔