حدودِ غم سے نکلو لوگو!
حنان علی عباسی
یہ کہانی ہے ہر اُس Silent Patient (خاموش مریض)کی ،جو اندر ہی اندر “حدودِغم” کے دائروں میں گھوم رہا ہے،”وسوسوں” سے وزنی ہے اور اِس کے (غارِذات) میں چلتےطوفان “زہر” بن کرپھیل رہے ہیں۔ اس کہانی کا مرکزی کردار محض ایک شخص نہیں ،بلکہ دنیا کے کروڑوں انسان ہیں ،جنہیں ذہنی تناؤ، اداسی، اضطراب اور مایوسی کا سامنا ہے۔ زندگی کی بھیڑ میں کوئی ان کااپنا نہیں،جو انہیں (چراغِ اُمید) تھما سکے….موسمِ تنہائی میں ان کے اندرسلگتی آگ اُس (بارود) میں بدل رہی ہے ،جو دماغ کی پچیس لاکھ گیگا بائٹس تک پھیلی وسیع قیام گاہ Human Memory کے لیے تباہ کن ہے۔
نئی ویڈیو جنریشن کے نازک دل لوگ کہیں قیدی ہیں، کہیں وحشی، کہیں زندہ ہیں، کہیں زخمی،کہیںﺧُﻮﺩ ﭘﺴﻨﺪ اور کہیںﺧﻮﺩ نما ہیں….اکثرجسمانی صحت کے لیے روزانہ بڑے میدانوں، سیوئمنگ پولوں اور جم جا کر ورزشوں کو تونکلتے ہیں مگر کوئی یہ دریافت نہیں کرتاکہ اس کی ذہنی صحت کیسی ہے…؟ لوگ پوچھ تو لیتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی مگر محسوس نہیں کر پاتے کہ ہمارے اردگرد کس کس پر گزر رہی ہے۔
دیکھوں تو میرے اردگرد کتنا ہجوم ہے
سوچوں تو عین وسط میں، تنہا کھڑا ہوں میں
مجھے”ذہن پڑھنا” تو نہیں آتا مگر جب بھی جدید "مدارِیار” کے گرد گھومتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ نئی تہذیب کا انسان ٹیکنالوجی، سائنس، مادی ضروریات، نئے رسم و رواج اور رجحانات کے دائروں میں الجھ کر سوچوں کے سفر میں پیچیدگیاں پیدا کر چکا ہے۔ ہمارے اندر دبے صدمات، خدشات،تنازعات اور فسادات ہی دراصل وہ وجوہات ہیں جو “اندرونی شگاف” کی بنیاد مزید گہری کر رہے ہیں۔ الجھن زدہ حیات کی سب تلخیوں کے درمیاں مجھے ایسے بحالی مرکز کی تلاش ہےجو اندر چلتے طوفانوں کی زباں سمجھ سکے، سن تو سب ہی لیتے ہیں۔
اک عجیب سی جنگ ہے مجھ میں
کوئی مجھ سے ہی تنگ ہے مجھ میں
گھبراہٹ کے تیز حملوں کا سامنا کرتی یوتھ سمجھ نہیں پا رہی کہ زندگی کے ہنگامہ خیز سمندرمیں، طوفان ایک جیسے آتے ہیں،مگر ان کا مقابلہ کرنے کی ہماری حکمت عملی مختلف ہوتی ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ ہم اپنے اندر لہروں کی طرح چلتےخیالات پر عبور حاصل کرکے انہیں اپنی من چاہی منزل تک لے جائیں۔ میں نے سفروں اور کتابوں میں جا بجا دیکھاکہ زندگی کمزور لوگ قبول نہیں کرتی، اس لیے مردِمیدان بن کر جیو۔
آج انسان چاند تو چھو رہا ہے مگرزندگی کے(پٹوار خانے)سے اپنے مقاصد کی ملکیت نہ لےسکا۔ مادی زندگی میں ڈوبے ہوئے انسان کے پاس خوش رہنے کے ہزار جواز ہیں مگروہ حوصلہ شکنی کے ایک ہی وار کے سامنے مسمار ہو کرمستقبل کی ہزار امیدیں چھوڑ دیتا ہے۔
جدید وجود مادیت پسندانہ خواہشات کے پیچھے "ڈیجیٹل اداسی” کا اس شدت سے شکار ہوا ہے کہ اس کے اندر سے تحقیق،روایات اور محنت سے محبت کے جذبات مرنے لگے ہیں۔ ہمارے گیجٹس پر چلتی "ملٹی ٹاسکنگ” کے تیز رقص نےہماری ذات کو بھی “سرسری سا”بنا دیا ہے۔ مجلسیں اور محفلیں مر چکی ہیں،آج الجھی نئی نسل کو بھی ایسی گفتگو لازمی چاہیےجو اس کی روح کو سیراب کرے۔
ساتھیو! وسوسوں سے بچنے کا سپورٹ سسٹم بناؤ…. تسلیم کر لو کہ شفا یابی بس سادگی اور خود انحصاری میں ہے۔ انسانوں سے سہارا لینے کی عادت ہی اکثر انسان کو بے سہارا کرتی ہے۔ مان لو کہ مخلصوں کے حصے میں تنہائی آتی ہے۔ تیزی سے پھیلتے نفسیاتی مسائل کا حل میری نظر میں فقط یہ ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی سے بنی ذات کا مرکزی دروازہ کھول کر ایسی سوچوں، وسوسوں اور رویوں کو کان سے پکڑ کر زندگی سے باہر پھینکو۔
ساتھیو ! آو سوچیں کہ اگرکشتیوں اور بحری جہازوں میں نصب بھاری لوہا پانی سے زیادہ وزنی ہوتے ہوئے بھی اوپر تیرسکتا ہے، توانسان بھی صبر اور یقین کے ساتھ مایوسی کے سمندر سے تیرتے ہوئے آگےنکل سکتا ہے۔ اندر جاری "ہنگامہ آرائی” کے نتیجہ میں مایوسی کبھی کبھار مجھ سے مکالمہ کرنے بھی آتی ہے، مگر میں عاجزی،صبر اور امید کی تلواریں اٹھا کر اسے بھاگا دیتا ہوں۔ آپ سب بھی میرے اپنے ہیں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ
اپنے سارے دکھ مجھے دے دو!!!!!
مگر زندگی کو شاخ سے کٹنے نہ دینا…..ساتھیو! جتنی بہادری خُودکشی کےلیے چائیے، اِس سے کئی گُنا کم میں زِندگی کے اکثر مسائل کا حل موجود ہے۔ بس یاد رکھو! زندگی فالو ونگ کمانے کا دھندہ نہیں۔ اس لیے ہجوم میں فن ِتنہائی اور غم میں فنِ تبسم سیکھو!!! یاد رکھو! انسانوں میں کوئی بھی تمہارا مالک یا رازق نہیں،اس لیے مخالفتوں کے نشتر سینے پر سہنا سیکھو۔ دانا ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ لفظوں کے زخم جھیلنے کے بعد بھول جانے کا فن یا تو پاگل کو آتا ہے یا کامل کو۔ دنیا کی سب سے بڑی قوت (قوتِ برداشت) ہے۔
بچت چاہتے ہو تو اپنے دل کو محفوظ مقامات موسم، ورزش، گپ شپ،کتاب، خواب اور چراغ میں مشغول کرلو۔۔۔!!!زندگی وہ جیل نہیں،جس کی سلاخیں لوگوں کی رائے ہوں۔۔۔۔ اگر ماضی کبھی منفی خیالات کے ساتھ تمہارےدروازے پر آئے تو “در بند رکھو” کیونکہ تلخ ماضی چلے ہوئے کارتوس اور فیوز ہوئے بلب کی طرح بے کار ہے۔ من سے منفی سوچوں کی نکاسی کا ایک حل “سیلف ریگولیشن” بھی ہے جو آپ کے جذبات اور تحریکوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کا مطلب صحت مند طریقے سے تناؤ، غصے اور مایوسی کی مینجمنٹ ہے۔
حدودِغم کے دائرے سے نکلنے کے لیے “تحریک اندرونی آزادی” چلانا پڑتی ہے، جس کے لیے تمام منفی جذبات اور رجحانات چھوڑ کر سوچوں کو یہ “منشور” تھمانا پڑتا ہے کہ :
دوستو
ساتھیو
رات گہری سہی، رات کالی سہی
مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں
بند آنکھیں کیے، سرد آنسو لئے
زندگی کی ٹھٹھرتی ہوئی پیٹھ پر
لاد کر رنج و غم
موت کی راہ پر ڈال دیں
لڑ کھڑاتی ہوئی زندگی کے قدم