جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کیخلاف انکوائری کب شروع کی گئی؟
کمیٹی سپریم کورٹ اور وزارت دفاع کی ہدایات کی روشنی میں تشکیل دی گئی تھی۔
انگریزی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق پاک فوج نےسابق آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کے لیے اپریل میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔
یہ کمیٹی فوج نے خود احتسابی کی علامت کے طور پر تشکیل دی تھی جس کی سربراہی ایک حاضر سروس میجر جنرل کو دی گئی .ان ذرائع کے مطابق کمیٹی سپریم کورٹ اور وزارت دفاع کی ہدایات کی روشنی میں تشکیل دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے کیا کہا تھا؟
14 نومبر کو جاری کردہ اپنے تحریری حکم میں، عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف "انتہائی سنگین نوعیت” کے الزامات کو "نظر انداز نہیں کیا جا سکتا” کیونکہ یہ ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا: "الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں، اور اگر درست ہیں تو بلاشبہ وفاقی حکومت، مسلح افواج، آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے، اس لیے ان پر توجہ دینا ضروری ہے۔”
واضح رہے کہ اسلام آباد کی ایک نجی ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کی انتظامیہ نے سابق آئی ایس آئی چیف کے خلاف سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اس کے مالک معیز خان کے دفاتر اور رہائش گاہ پر چھاپے کا منصوبہ بنایا تھا۔
نومبر 2023 میں سپریم کورٹ نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک سے کہا تھا کہ وہ سابق انٹیلی جنس سربراہ اور ان کے معاونین کے خلاف اپنی شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ حلقوں سے رجوع کرے۔
رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ نئی تشکیل شدہ انکوائری کمیٹی اپنے نتائج کی روشنی میں اپنی رپورٹ تیار کرے گی اور متعلقہ حکام کو پیش کرے گی۔
مارچ 2023 میں اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سابق آئی ایس آئی چیف اور ان کے بھائی کے خلاف مبینہ بدعنوانی اور آمدن سے زائد اثاثے جمع کرنے کی تحقیقات جاری ہیں۔
مارچ 2024 میں راولپنڈی کی ایک عدالت نے فیض حمید کے بھائی ریٹائرڈ نائب تحصیلدار نجف حمید کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا۔ نجف نے شریک ملزمان کے ساتھ راولپنڈی میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) میں درج ایف آئی آر میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی تھی۔ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا تھا کہ سابق وزیر معدنی وسائل حافظ عمار یاسر نے بے نامی داروں کے نام پر اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں۔
پٹیشن میں کیا موقف اختیار کیا گیا؟
درخواست کے مطابق، 12 مئی 2017 کو، پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے مبینہ دہشت گردی کے مقدمے کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور سونے اور ہیرے کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان چھین لیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ جنرل حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور بظاہر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنی بریت کے بعد، درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ، جنرل حمید نے معیز کے کزن ( فوج میں ایک بریگیڈیئر) کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل فیض حمید نے درخواست گزار کو بتایا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینے گئے 400 تولہ سونا اور نقدی کے علاوہ کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو "4 کروڑ نقد ادا کرنے” اور "کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل AAP ٹی وی نیٹ ورک کو اسپانسر کرنے” پر مجبور کیا۔
درخواست کے مطابق، آئی ایس آئی کے سابق اہلکار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی "ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث” تھے۔
When was the inquiry started against General R Faiz Hameed?، فیض حمید کیخلاف انکوائری کب شروع کی گئی؟