جرائم میں سب سے بڑا جرم کسی انسان کی جان لینا ہے،ایس ایچ او تھانہ بکوٹ
ایبٹ آباد (نوید اکرم عباسی) بکوٹ علاقہ کے پرامن ماحول میں جرائم کرنے والوں کے خلاف ضابطہ کی کارروائیاں جاری ہیں عوام علاقہ کسی بھی کیس پر برائے راست رابطہ کرکے پولیس کی معاونت کرسکتے ہیں SHO تھانہ بکوٹ زبیر خان تنولی نے طالب علم نعمان زرداد عباسی کیس پر میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جرائم میں سب سے بڑا جرم کسی انسان کی جان لینا ھے ۔ایسے لوگوں کے لیے کوئی رعایت اور ھمدردی نہیں ہونی چاہیے یونین کونسل نمبل کے نوجوان طالب علم نعمان زرداد عباسی کے قتل کیس پر زبیر تنولی کا کہنا تھا کہ اسکے گھر سے غائب ہونے کے دو دن بعد اسکی حقیقی والدہ نے تھانہ میں آکر اسکی گمشدگی کی ابتدائی درخواست دی اور کسی پر شک وشبہ کا اظہار بھی نہیں کیا اس پر ھم نے اپنے زرائع سے دریافت کی اور مشتبہ افراد کی تفتیش میں اسکے دو حقیقی خالہ زاد بھائیوں عدنان اور شمس جو کہ نمل گاؤں اور سنگل گاؤں سے تعلق رکھتے تھے اور انکا موبائل ریکارڈ بھی رابطہ میں تھا انھوں نے بتایاکہ نعمان حادثاتی طور پر دریا میں گرگیا ھے اس پر انکے کچھ شواہد مل رہے تھے کہ نعمان کو ان ملزمان نے قتل یا غائب کردیا جس پر اسکی والدہ جو مدعی مقدمہ ھے اس کو نعمان کے دادا اور چچاکی موجودگی میں تفصیلات دیں اور ان سے تھانہ میں اور پھر عدالت میں جاکر ملزمان کو نامزد کرنے اور دوسری کاروائی کے لیے کہا مگر ان کی طرف سے کوئی بیان نہ ریکارڈ کروایا گیا جس پر ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 365 کاروائی کرکے عدالت نے جیل بھیج دیا زبیر تنولی کا کہنا تھا کہ اب بھی اگر والدہ یا والد کوئی بھی مزید معلومات دے کر نامزد کرکے ملزمان کے خلاف کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو ھم قانون کے مطابق انکی بھرپور مدد کرکے دفعات شامل کریں گے جسکے لیے پہلے ہی عدالت کو ریکارڈ دیا جاچکاہے کہ ملزمان پر ان دفعات کو شامل کیا جائے ۔اس سوال پر کہ ملزمان کے اقبال جرم پر قتل کی دفعات شامل نہیں کی گئیں تو زبیر تنولی نے کہاکہ پہلی ایف آئی آر گمشدگی کی اور کسی کو نامزد مدعیہ نے نہیں کیا پھر پولیس کے سامنے ملزمان کے بیان کی عدالت میں کوئی حثیت اس وجہ سے نہیں رہتی کہ وکیل کی موجودگی میں ملزمان منحرف ھوجاتے ہیں اور مدعی کی طرف سے نہ تو ورثاء عدالت آئے نہ وکیل آیا نہ ملزمان کے خلاف بیان ریکارڈ کروایا گیا تو عدالت نے گمشدگی کیس پر جیل بھیج دیا اقبال جرم عدالت میں ہو تو اس کی اہمیّت ہوتی ھے جو اگلی پیشی پر پولیس ریکارڈ دیکھ کر عدالت مزید دفعات اور اقبال جرم کی بنیاد پر کاروائی کرسکتی ھے اب بھی اگر نعمان کی والدہ کسی وجہ سے تھانہ یا عدالت نہیں آسکتی تو اسکے والد دادا چچا آکر مزید کاروائی کے لیے قتل کیس میں نامزد کرکے مزید دفعات قانون کے مطابق شامل کروا سکتے ہیں جنکی پولیس پہلے ہی لکھ چکی ھے۔زبیر تنولی نے کہا کہ اس کیس میں ابھی تک نہ تو ڈیڈ باڈی ملی اور نہ کوئی گواہی دینے سامنے آیا اسکے باوجود پولیس نے اپنے طریقہ کار کے مطابق تحقیق اور تفتیش کرکے مشتبہ ملزمان کو گرفتارکر عدالت اور عدالت نے جیل تک پہنچائے اب والد یا دیگر لوگ عمائدین علاقہ اس کیس پر جو شواہد اور بیان ریکارڈ کروانا چاہتےہیں ھم انکے محافظ اور خادم ہیں وہ آکر کیس کا حصہ بن سکتے ہیں ۔جبکہ زرائع کے مطابق بکوٹ پولیس نے چالان میں اپنی طرف سے301.302.302 کے اضافی اندراج کے لیے استدعاء کی ھے ۔زرائع کے مطابق آذاد پتن کے قریب جہاں دریا سے ڈوبنے والوں کی لاشیں ملتی ہیں وہاں سے ملنے والی ڈیڈ باڈی کی شناخت اور نعمان کے والد زرداد عباسی کی پاکستان آمد یا اسکے دادا کے بیان کی روشنی میں تمام کاروائی متوقع ھے ۔