تلپٹ بستیاں۔۔۔ قوم لوط کی عبرتناک داستان
یہ بھی کم و بیش چار ہزار سال پہلے کا قصہ ہے۔پانچوں بستیاں بڑی سرسبز و شاداب تھیں۔غلے اور پھلوں کی کثرت تھی، دولت و ثروت کے انبار تھے، غرض یہ کہ ہر نعمت ان بستیوں کے مکینوں کو میسر تھی۔ نیک سیرت لوگوں کو یہ اسباب ملے تو ان میں شکر کے جذبات فراواں ہوتے ہیں۔ لیکن بد خلصت قوم کو عیش و عشرت کے دنیوی وسائل مہیا ہوں تو وہ حرص و ہوس میں مبتلا ہو جاتی ہےاور اچھے برے کی تمیز بھی کھو بیٹھتی ہے۔اسے گناہ میں لذت ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس پر وہ اعلانیہ فخر کا اظہار بھی کرتی ہے۔
یہ ایک ایسی ہی قوم کی عبرت ناک داستان ہے جس کی گواہی ان پانچ شہروں کے تباہ شدہ آثار آج بھی دیتے ہیں، اس قوم نے خباثت میں خنزیر جیسے جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔وہ اخلاقی زوال اور نفسانی خواہشات کی تمام حدیں پار کر چکی تھی۔اس نے اپنی ہلاکت و بربادی کے لیے جو غلیظ راہ اپنائی اس پر پہلے کسی قوم نے قدم نہیں رکھا تھا۔یہ قبیح گناہ اس سے قبل کسی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہ آیا تھا۔
گناہ کرنا، علی الاعلان کرنا، اور اس پر فخر و مباہات کا اظہار کرنا، اس قوم کا شعار تھا۔مسافر تاجروں کو لوٹنے کا ایک انوکھا انداز اس قوم کے افراد نے اپنایا ہوا تھا۔کوئی سوداگر ان کی بستی میں مقیم ہوتا تو لوگ مال دیکھنے کے بہانے فرداً فرداً اس کے پاس آتے اور نمونے کے لیے تھوڑی تھوڑی چیزیں اٹھا کر لے جاتے۔یہاں تک کہ سارا سامان ختم ہو جاتا اور سوداگر کے پاس کچھ نہ رہتا۔ نہ مال و اسباب اور نہ اس کی قیمت یا منافع۔تاجر کے رونے پیٹنے پر وہ ستمگر ایک ایک کر کے آتے،اس سے اظہار ہمدردی کرتے اور کہتے،”میں تو صرف اتنی سی چیز لے کر گیا تھا آپ رنجیدہ خاطر ہیں تو اسے واپس لے لیں۔”سوداگر اور بھی ملول ہوتا اور کہتا "اس کا میں کیا کروں گا میرا سارا سامان لٹ گیا ہے تو یہ بھی تم ہی رکھ لو۔”تمام لٹیرے ایک ساتھ آنے اور تاجر کا مال واپس کرنے کے بجائے اس تدبیر سے اس کا سارا مال ہضم کر جاتے اور وہ آہ و بکا کرتا ہوا اپنی راہ لیتا۔
ایک روز تو کمال ہی ہو گیا۔ایک بوڑھا اجنبی بستی میں داخل ہوا تو اس ذلیل قوم کے ایک شخص نے اس کے سر پر پتھر دے مارا۔خون سے اجنبی کے سفید بال سرخ ہو گئے تو ظالم نے اس سے معذرت کرنے کے بجائے یہ کہہ کر معاوضہ طلب کیا کہ "مجھے اپنے بال رنگنے کی اجرت دو۔”مجروح اجنبی؛ قاضی کی عدالت میں فریاد لے کر پہنچا تو وہاں سے حکم صادر ہوا "پتھر مارنے والے کا مطالبہ درست ہے اس کی وجہ سے تمہارے سفید بال سرخ ہوئے ہیں لہذا اسے معاوضہ ادا کرنا تمہارا فرض ہے۔”عدل و انصاف کی ایسی مثال اس قوم سے پہلے کر ہ ارض پر کہیں موجود نہ تھی لیکن اس سے ملتے جلتے نمونے آج بھی دنیا میں ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔
خباثت،فحاشی میں بری طرح لتھڑی ہوئی قوم کے درمیان شرافت و پاکیزگی کا ایک اعلی نمونہ بھی موجود تھا جس کی وجہ سے یہ بستیاں عذاب الہٰی سے بچی ہوئی تھیں۔اس نیک نفس انسان کے گھر ایک مرتبہ تین مہمان آئے۔تینوں نہایت حسین و جمیل نوجوان تھے۔بستی کے لوگوں نے پاکباز و پاک طینت میزبان کے گھر پر دھاوا بول دیا۔وہ ان خوبرو لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کے لیے بے چین تھے۔وہ دنیا میں اس گناہ کے موجد اور خوگر تھے۔اپنی بیویوں کو چھوڑ کر ہم جنسوں سے انہیں رغبت تھی۔اللہ کا نیک بندہ ان کی بدترین نفس پرستی دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔اسے اپنے مہمانوں کی عزت و حرمت کی فکر لاحق ہو گئی۔
خوبصورت نوجوانوں نے اسے اطمینان دلایا: آپ فکر نہ کیجئے۔ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں۔نفس و ہوس کی بندے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہم اتمام حجت کے لیے آئے ہیں۔اللہ نے ان پر شدید عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر کے ہمیں اس کام پر مامور کیا ہے۔آپ اپنے اہل خانہ کو لے کر صبح سے پہلے یہ بستیاں چھوڑ دیں۔لیکن آپ کی بیوی یہیں رہے گی۔ کیونکہ وہ اس گناہ گار قوم کی رکن ہے اور ہلاکت اس کا مقدر ہے۔رات ختم ہوئی تو پہلے ایک ہیبت ناک چیخ بلند ہوئی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ بھری پری پانچوں بستیاں یوں الٹ گئیں جیسے کسی نے ہاتھ کی ہتھیلی اور پانچ انگلیوں سے مٹی کی گیلے تودے کو پلٹ کر رکھ دیا ہو۔اس کے بعد پتھروں کی تیز بارش نے ساری قوم کو سنگسار کر دیا۔غیر عورتوں کے ساتھ حرام کاری سے زیادہ گھناؤنے جرم کی عادی یہ قوم اسی سزا کی مستحق بھی تھی۔
یہ اس قوم کا عبرت ناک انجام تھا جس کی ہدایت کے لیے حضرت لوط علیہ السلام معبوث ہوئے تھے۔وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے اور اللہ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔یہ قوم سدوم،عمورہ،ادمہ،صبوبیم اور بالع یا صوغر نامی بستیوں میں آباد تھی جن کے لیے قران حکیم نے "مئوتفکات” یعنی "تلپٹ بستیاں” کا جامع لفظ استعمال کیا ہے۔سدوم ان بستیوں کا مرکزی شہر اور دارالسلطنت تھا۔حکم الہی سے ان بستیوں کو اندھا کر کے الٹ دینا اس قوم کے خبیث عمل سے مطابقت رکھتا تھا۔
یہ لوگ اس علاقے کے قریب آباد تھے جسے آج شرق اردن کہا جاتا ہے۔ان کا صدر مقام بحیرہ مردار میں غرق ہے جہاں پانی کے اندر ڈوبی ہوئی بستیوں کے کچھ آثار عبرت کے لیے آج بھی باقی ہیں۔قران مجید کی سورۃ الذاریات میں اس نشانی کا ذکر ہے اور سورۃ ہود میں حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ جس آیت پر ختم ہوا ہے اس کا مفہوم ہے کہ "پتھر کا عذاب آج بھی ظالموں سے کچھ دور نہیں ہے۔”خدا نہ کرے کہ کوئی قوم اب بھی اس عذاب کی سزا وار ٹھہرے۔مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے۔ جبکہ دیگر قوموں میں بھی یہ گناہ کبیرہ بڑھتا جا رہا ہے ۔خلاف فطرت اس فعل خباثت کو لواطت اور اس کے مرتکب کو لوطی کہنا ایک جلیل القدر پیغمبر کی شان میں سخت گستاخی کے مترادف ہے۔لہذا اہل ایمان کو ان الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔