تختی کے ساتھ دل کیوں جڑا ہوتا تھا۔۔۔؟؟
پڑھن سکول نوں جاندے ہاسے
ہیٹھ پیپل دے باہندے ہاسے
تختی ، بستے ، قلم ، دواتاں بھلدیاں نئیں
1990 سے 2010 تک کی جنریشن نے سکول لائف کی جو بہاریں دیکھی اور محسوس کی ہیں شاید ہی کسی اور نے ان کو محسوس کیا ہو ۔ یہ واحد جنریشن ہے جس نے استاتذہ اکرام کا حد سے زیادہ پیار دیکھا ہے اور انتہا کی مار بھی برداشت کی ہے۔۔ کلاس فیلوز کے ساتھ کھلا مذاق اور لڑائی کے تھوڑی دیر بعد وہی اپنائیت محسوس کی ہے۔
آج کی جنریشن کبھی یہ نہیں جان سکے گی کہ تختی کے ساتھ دل کیوں جڑا ہوتا تھا۔۔۔؟؟ سیاہی کی دوات کے ساتھ اتنا لگاؤ کیوں تھا۔۔۔؟؟ اپنا قلم کیوں اتنا پیارا لگتا تھا ۔۔۔؟؟
آنے والی نسلیں اس نعمت سے محروم رہیں گی کہ جب استاد قلم بنا کر دیتے تھے تو اپنی خوش بختی پہ کتنا غرور آتا تھا ۔
آج کے بچے اس امیری سے محروم ہیں کہ جب ماں کسی بچے ہوئے کپڑے سے بستہ بناتی تھی تو اسے کاندھے پہ لٹکاتے ہی انسان ہواؤں میں اڑنے لگتا تھا ۔
برگر ، پیپسی اور بریانی کھانے والے برف کے گولے، مرنڈا ، گچک اور ٹھنڈی ہوا والی گولیاں ( ہوسٹ) کے ذائقے سے کبھی آشنا نہیں ہو سکیں گے ????
نجانے کتنی حسین یادیں وابستہ ہیں ۔۔۔ وہ بہاریں شاید اڑن کھٹولے میں کہیں دور چلی گئی ہیں__!!