top header add
kohsar adart

تختی کا دھڑن تختہ

قلم دوات اور سیاہی (روشنائی) کا دور اس سے بھی حسین تھا۔ ہاتھ سے لپیٹی ایک مثلث نما پُڑیا میں دانے دار سیاہی ملا کرتی تھی لیکن جس بچے کے پاس اچھی پیکنگ اور لیبل والا ساشے ہوتا وہ مالدار دِکھتا۔ اس سیاہی کے دانے بڑے چمکیلے ہوا کرتے تھے۔ مٹی کی بنی ہانڈی نما ایک کمہاری دوات میں وہ دانے ڈالے جاتے، تھوڑا سا پانی ڈال کر دونوں ہاتھوں سے قلم کو مدھانی کی طرح اس دوات میں گھمایا جاتا۔ دوات کا بیلنس قائم رکھنے کے لئے ماہر بچے اسے دونوں پاوؑں کے پنجوں سے مضبوطی سے پکڑ کر گھوٹا لگاتے۔ مکسچر کی لیس چیک کرنے کے لئے قلم کو دوات سے باہر نکال کر اس کے سرے پر لگی سیاہی کو انگشت اول سے چھوتے اور پھر انگوٹھے کی مدد سے اس محلول کی چپکاہٹ کا اندازہ لگاتے۔ اگر ضرورت ہوتی تو تھوڑا سا پانی مزید شامل کرتے۔ پھر چیک کرتے پھر دو چار قطرے ڈالتے۔ یوں ایک وقت میں سیاہی مطلوبہ معیار تک پہنچ جاتی تو اس میں چھوٹا سا سوتی کپڑا ڈال کر قلم سے ڈبوتے۔ دوات سیاہی کا یہ کھیل اس وقت تک چلتا رہتا جب تک بچے کے ذوق کی سیاہی تیار نہ ہو جاتی۔ مٹی کی کمہاری دوات کی جگہ شیشے کی دوات نے لے لی۔ لیکن سیاہی کپڑے اور گھوٹے کا یہ سلسلہ پیلیکن یا Elite کی ریڈیمیڈ سیاہی آنے تک جاری رہا۔

قلم کہانی بھی مزے کی واردات تھی۔ بانس کی چھوٹی شاخیں یا سرکنڈوں سے قلم تیار ہوتی۔ چاقو یا ٹریٹ بلیڈ سے اس کی نِب بنائی جاتی۔ قط کی ضرورت کے مطابق بانسی قلم کے سرے کو گھڑا جاتا یہاں تک کہ مطلوبہ قط دستیاب ہو جاتا۔ ان قلموں کا اصل میدان گاچی مٙلی لکڑی کی تختی ہوا کرتی تھی۔ کبھی کبھی کاغذی کاپی پر بھی یہ قلم دوات سیاہی کام آتی۔ تختی کا کلچر بھی بڑا پر لطف تھا۔ سکول جاتے بچوں کے ایک ہاتھ میں تازہ تختی ہوتی جبکہ دوسرا ہاتھ لگے میں کراس ڈالے بستے کی وجہ سے آزاد ہوتا۔ بچوں کی باہمی لڑائی میں یہ آزاد ہاتھ تختی والے تلواری ہاتھ کی مدد کرتا۔ تازہ تختی سے مراد گزشتہ روز کی استعمال شدہ تختی کو پانی سے دھو کر اس پر نرم ملائم گاچی کا ہلکا سا لیپ کر دیا جاتا پھر سکھانے کے لئے تختیوں کے کان آپس میں پھنسا کر انہیں دھوپ میں ایسے رکھا جاتا جیسے کوئی خیمہ ہو۔ شہر ہو یا گاوؑں، ایسی خیمہ بستیاں اکثر نظر آیا کرتی تھیں۔

قلم دوات اور کیلیگرافی کے اس کام میں ندرت اس وقت آئی جب زیڈ کی آہنی نب نے اپنا مقام بنایا۔ اردو کتابت کے لئے یہ نب اپنی مثال آپ تھے۔ اس نب کا ایک ڈوبہ لینے کے بعد یہ تادیر لکھتی رہتی تھی۔ اس کے دوشاخی سرے سے سیاہی رفتہ رفتہ نیچے منتقل ہوتی رہتی تھی۔ انگلش کے لئے اساتذہ نے آئی کی نب استعمال کروانا شروع کی۔ یہ نب بھی کمال تھی، اوپر جاتے باریک اور نیچے آتے چوڑی ہوتی جاتی تھی۔ ہم جیسے بدخط طالبعلم بھی ان نبوں کی بدولت استاد الحامد مصری اور نفیس شاہ لگنے لگے تھے۔

فونٹین پین آیا تو پہلے بہادر پھر ایگل آیا۔ اس پین کی نب کو دوات میں رکھ کر ان کی دُم پر لگے اسکریو کو گھمانے سے ان کا پیٹ بھرنے لگتا تھا۔ پھر ہفتہ بھر یہ سیاہی ختم نہ ہوتی۔ ان پینز کے دوران ہی یہ دوسری قسم کے پین ہماری رسائی میں آنے لگے۔ یہ قدرے قیمتی ہوا کرتے تھے۔ ان کی خاص بات ان کے اندر کی پِلپلی ٹیوب تھی، جس کو دبانے سے سیاہی کو یہ ویکیوم پمپ کی طرج یکدم اپنے پیٹ میں بھر لیتا تھا۔ اس سیریز کی اعلیٰ ترین قسم پارکر پین تھے۔ کسی کے ہاتھ میں پارکر ۵١ ہونے کا مطلب تھا کہ رئیس لڑکا ھے۔ اساتذہ کے کوٹ کی فرنٹ جیب پر چار پانچ پین لگے ہونے کا مطلب تھا کہ لال، سبز، نیلی اور کالی سیاہی والے پین ۔۔۔ یعنی یہ پڑھنے لکھنے کے علاوہ دستخط اور نوٹس لکھنے کے بھی کام آنے والے پین ہیں مطلب یہ ایک بااثر شخص ھے۔ ان کے چمکیلے کیپ بتاتے تھے کہ یہ ایگل یا پارکر ہیں۔ فاوؑنٹین پین کا یہ موسم بال پوائنٹ، فائبر ٹِپ پین آنے تک دھوم مچاتا رہا۔

پھر خوش خطی کوئی ہنر نہ رہا ۔۔۔ اردو خطاطی چار سطروں والی کاپیوں پر سکھائی جانے لگی۔

تخت پر بیٹھی تختی کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More