تجارتی و سیا حتی مرکز کوہالہ، جو تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا
کڑلال قبیلے اور ڈھونڈ عباسی قبیلے کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد یہ علاقہ ڈھونڈ قبیلے کے زیر اثر چلا گیا
تحریر..حبیب عزیز
کوہالہ خطہ کوہسار مری سرکل بکوٹ اور آزاد جموں کشمیر کے بیچوں بیچ ایک مشہور جگہ ہے۔اسے گیٹ وے آف کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔
اس جگہ کی تاریخ سینکڑوں سال پرانی ہے۔برصغیر میں اسلام کی آمد سے قبل یہ علاقہ ہندو مذہب کی تاریخ میں بھی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔
کوہالہ دریائے جہلم کے کنارے آباد ہے جو زمانہ قدیم سے ریاست جموں کشمیر کی قدرتی حد ہے۔ہندو مذہب میں دریائے جہلم کو مقدس مانا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں سری نگر کے 48 میل جنوب میں تحصیل ویری ناگ ( ضلع اننت ناگ / اسلام آباد ) ہے ، جہاں ” کوہ پیر پنجال ” کے خوبصورت اور صنوبر کے درختوں سے ڈھکے پہاڑ ” بانہال ” کے دامن میں 50 فٹ گہرا اور 100 فٹ پر محیط ایک چشمہ ویری ناگ ہے ۔ یہی چشمہ آگے جا کہ کشمیر اور پاکستان کے مشہور دریا دریائے جہلم کو جنم دیتا ہے جو صوبہ پنجاب کا دوسرا جبکہ دریائے سندھ کا سب سے بڑا معاون دریا ہے ۔
دریائے جہلم کو "فرزندِ کشمیر ، ویتھ ، وتستا ، ہائیڈراپس ، اور نہ جانے کن کن ناموں سے پکارا جاتا ہے.یہ ہندوستان اور پاکستان سمیت وادی کشمیر کا بھی ایک مرکزی دریا ہے جو نہ صرف ان علاقوں کی زراعت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے بلکہ سامان کی نقل و حرکت کا بھی اہم ذریعہ ہے۔
ویری ناگ نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ویری اس علاقے کا پرانا نام تھا اور ” ناگ ” مقامی زبان میں چشمے کو کہتے ہیں جو اس شہر کی وجہ شہرت ہے ۔ شروع میں یہ ایک بے ڈھنگا سا چشمہ تھا جس کے کناروں سے پانی اچھل اچھل کہ بہتا رہتا تھا۔
مسلمانوں کی برصغیر میں آمد کے بعد ہزارہ ایبٹ آباد اور مری میں مسلمان قبائل یہاں آباد ہونا شروع ہوئے.
کڑلال قبیلہ انہی میں سے ایک تھا جن کا مرکز بکوٹ کا علاقہ تھا اور کوہالہ کا علاقہ انہی کے زیرِ انتظام تھا.
کڑلال قبیلے اور ڈھونڈ عباسی قبیلے کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد یہ علاقہ ڈھونڈ قبیلے کے زیر اثر چلا گیا جس کا مرکز بیروٹ موجودہ سرکل بکوٹ میں تھا۔
سن 1800 کی شروع کی دہائی میں راولپنڈی کے سکھ حکمران ملکہ سنگھ نے کوہالہ پر قبضہ کر لیآ اور 1814 میں ملکہ سنگھ اور کشمیر کے حکمران گلاب سنگھ نے مل کر یہاں ہندو تاجروں کے لیے ایک منڈی بنائی۔واضح رہے کہ اس زمانے میں پورا پنجاب سکھوں کے قبضے میں تھا۔
یہ علاقہ پنجاب یا ہزارہ کے زیرِ انتظام تھا لیکن ساتھ میں ریاست جموں و کشمیر میں داخلے کا مرکزی دروزازہ بھی تھا۔
انگریزوں نے 1849 میں سکھوں کو شکست دے کر پنجاب پر قبضہ کرلیا۔جلد ان اسکے قدم کوہالہ تک آپہنچے۔ریاست جموں کشمیر پر ڈوگروں کی حکومت تھی اور کوہالہ آخری برطانوی چوکی تھی۔یہاں سے انگریز کا راج شروع ہوتا تھا۔
کوہالہ مری کا حصہ کیوں بنا؟
1855 میں کوہالہ کو ہزارہ کی کمشنری سے جھاری کس حسن ابدال کی اراضی کے تبادلے میں مری کا حصہ بنایا گیا اور اس کی لیز ایک سو سال کیلئے پنجاب حکومت نے حاصل کر لی۔
انگریز کے پنجاب پر قبضے کے بعد مشہور انگریز گورنر جیمس ایبٹ جس کے نام پر ایبٹ آباد کا شہر آباد ہے نے سن 1863 میں اس پورے علاقے کو جسے عام طور پر پتن کیا جاتا تھا، کا سرکاری نام کوہالہ رکھ دیا اور اس علاقے کے انتظامی امور ایک سال سو سال کے پٹے پر مری میں منتقل کر دیے جو پنجاب حکومت کے زیر انتظام تھا۔
کوہالہ نام کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ
کوہالہ کا مطلب کوہ ہالہ ہے یعنی چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا علاقہ۔
پہاڑی زبان میں پالتو جانوروں کو باندھنے کی جگہ کو "کوہال” کہتے ہیں۔کوہالہ نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ سردیوں میں کشمیر سے میدانی علاقوں کی طرف جانے والے گوجر قبیلے اس مقام پر اپنے جانور باندھ کر ایک دو راتیں قیام کیا کرتے تھے۔واپسی کے سفر میں بھی یہاں قیام ہوتا تھا۔
کوہالہ نام کے بارے میں آخری وجہ تسمیہ ہندو دیوی کوہالہ دیوی کی وجہ سے مشہور ہونا ہے.
قبل اسلام ہندو یہاں کوہالہ دیوی کی پوجا کیا کرتے تھے اور دریائے جہلم میں اشنان کیا کرتے تھے۔
انگریزحکومت نے 1880 میں کوہالہ میں ٹیلی گرام کا دفتر اور ایک شاندار ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا،
علامہ اقبال نے 1930 میں اپنی مشہور نظم ہمالہ اسی ریسٹ ہاؤس میں بیٹھ کر لکھی۔قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی یہاں قیام کیا۔
جواہر لعل نہرو کو اسی پل پر بغیر اجازت کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
انگریزوں نے کشمیر اور راولپنڈی کے درمیان دوطرفہ تجارت میں تیزی لانے کیلئے کوہالہ میں 1871 کو معلق پل بنایا جو 1893 میں ایک سیلاب کے نتیجے مں بہہ گیا، دوسرا آہنی پل 1899میں تعمیر ہوا ۔
سرکل بکوٹ بیروٹ کے علاقے باسیاں کے شاہنواز خان کو ان دونوں پلوں کا ٹھیکہ ملا جبکہ بیروٹ کے پہلے انجینیئر مستری نور الٰہی نے ان دونوں پلوں کو نہ صرف ڈیزائن کیا بلکہ ان کی نگرانی میں ان پلوں کی تعمیر مکمل ہوئی۔
کوہالہ کی وجہ سے سری نگر کا براہ راست تجارتی رابطہ راولپنڈی سے ہوا ۔کشمیری اجناس پنجاب پہنچنے لگیں، اس کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کی داغ بیل ڈالی گئی۔
1910 میں ترمٹھیاں کے دیوان سنگھ کی چار بسیں راولپنڈی سرینگر روٹ پر دوڑنے لگیں، دیوان سنگھ کا بھتیجا کاکا سنگھ سرکل بکوٹ کا پہلا ڈرائیور تھا۔اس روٹ پر کاکا سنگھ کی بس کا 1920میں پہلا حادثہ برسالہ کہ مقام پر ہوا جس میں بیروٹ کے میاں میر جی شاہ سمیت 20افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
انگریزوں نے کوہالہ کو تجارتی مرکز کی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک سیاحتی مرکز بھی بنایا، یہاں پر ایک ریسٹ ہائوس، تار گھر، پوسٹ آفس، ایک شراب خانہ بھی بنایا گیا تھا.
یہ بازار ایک میل لمبا تھا اور اس کی حیثیت باب کشمیر کی تھی، 1947 تک کوہالہ کی 85 فیصد تجارت ہندو ساہوکاروں کے ہاتھ میں تھی اور مقامی مسلمان محض خریدار تھے۔
عہد حاضر میں کوہالہ اپنی مرکزی حیثیت کھو چکا ہے،
آزاد کشمیر میں بھی منڈیاں قائم ہونے کے بعد یہاں سے اب کچھ بھی برآمد نہیں ہو رہا۔
اولڈ کوہالہ اب محض ماضی کا ایک قصہ ہے جو تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا ہے۔
آزاد جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفراباد کی زیادہ تر ٹریفک اب کوہالہ سے تقریبا 2 یا 3 کلومیٹر پیچھے بنے ہوئے نئے پل کو استعمال کرتی ہے۔وہی کوہالہ جو کبھی پورے کشمیر اور گرد و نواح کا بڑا تجارتی مرکز تھا اب سمٹ کر چند مقامی دیہاتوں کا مرکز بن کر رہ گیا ہے.
اوسیاہ مری۔
مورخہ 16 مارچ 2024