kohsar adart

بھاگ بھری

جینگوں کا کاروبار کرنے والے عبد اللطیف سے میری رسمی سی دعا سلام تھی۔لیکن جب ایک گمشدہ بچے کی تلاش میں مجھے اس کی مدد کی ضرورت پیش آئی تو اس نے نہ صرف گمشدہ بچے کی تلاش میں نہایت سرگرمی سے میری مدد کی بلکہ دو روز تک اپنے گھر میں مجھے مہمان بھی رکھا تھا۔گمشدہ بچہ تو ہمیں نہیں ملا جس کی ہمیں تلاش تھی،لیکن ان دو دنوں کی رفاقت میں ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے۔عبد اللطیف جھینگوں کا بڑا بیوپاری تھا جس کی 10 سے زیادہ لانچیں کراچی کے سمندر سے جھینگے پکڑتی تھیں۔بلکہ وہ دریائے سندھ کے کنارے آباد مچھیروں کی مدد سے بھی کثیر مقدار میں جھینگے حاصل کر کے،جھینگے برآمد کرنے والے اداروں کو فراہم کرتا تھا۔عبد اللطیف کا ایک ہی بیٹا تھا جسے اس نے نہ صرف بڑے ناز سے پالا تھا بلکہ اسے اعلی تعلیم بھی دلوائی تھی۔عبد اللطیف اور اس کے بیٹے کی بھی خواہش تھی کہ اسے اعلی تعلیم کے لیے باہر بھیجا جائے لیکن بہتر مستقبل کے لالچ کے باوجود یہ دونوں باپ بیٹے جدا ہونا نہیں چاہتے تھے۔اور عبداللطیف کے بیٹے عبد الشکور نے بی ایس سی کرنے کے بعد بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لیا ہوا تھا۔عبداللطیف کے دکھ کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے اکلوتے بیٹے کو قتل کر دیا گیا تھا۔اس کہانی کا علم مجھے اس وقت ہوا جب دو دن تک میں عبداللطیف کے گھر مقیم رہا تھا اور میرے علم میں یہ بات آئی تھی کہ عبداللطیف نہایت رازداری سے ایک سندھی پاگل عورت کا علاج کرا رہا تھا۔عبداللطیف کے گھر میں اس پاگل عورت کی موجودگی سے چند قریبی لوگ ہی واقف تھے جب اتفاق سے اس پاگل عورت سے میری مڈھ بھیڑ ہو گئی تھی تو عبد الطیف نے کسی سے ذکر نہ کرنے کی تاکید کے بعد مجھے یہ کہانی سنائی۔
عبد الشکور کے قتل اور پاگل عورت کی کہانی سناتے ہوئے عبداللطیف کئی بار پھوٹ پھوٹ کے رویا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ اب اسے زندگی سے کوئی رغبت نہیں ہے اس نے اپنا کاروبار بھی کسی حد تک سمیٹ لیا تھا۔وہ کہتا تھا اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو وہ کبھی کا خودکشی کر چکا ہوتا۔عبداللطیف نے بتایا کہ اس کا بیٹا عبد الشکور ایک خوبرو دراز قت نوجوان تھا اور تمام تر آسائشوں اور دولت کی فراوانی کے باوجود نہایت صابر شاکر اور خوش اطوار لڑکا تھا اور حلقہ احباب میں نیک ترین لڑکا سمجھا جاتا تھا۔
عبداللطیف نے جو کہانی سنائی اس کا لب لباب اس طرح تھا دریائے سندھ کے دہانے پر جہاں دریائے سندھ سمندر سے آ ملتا ہے۔۔۔بہت سے مچھیرے قبائل رہتے ہیں۔ان قبائل کے کئی خاندان عبداللطیف کے لیے سمندر سے جھینگے پکڑ کر لاتے تھے،جنہیں جمع کر کے اس کی لانچیں کراچی پہنچاتی تھیں۔عبداللطیف کا ان لانچوں سے سالانہ معاہدہ ہوتا تھا اور عبداللطیف انہیں معقول رقم کے علاوہ جال، کشتیاں اور دیگر سامان بھی فراہم کرتا تھا۔ان قبائل میں چند خاندان "فقیرانی جت” قوم کے بھی تھے۔جن کی رسومات اور عقائد بہت مختلف تھے۔اس قبیلے میں ایک منفرد بات یہ تھی کہ ان کے چھ سال سے بڑے تمام مرد بچے بھی بڑوں کے ساتھ جھینگوں کے شکار پر جایا کرتے تھے جو کہ کئی روز بلکہ ہفتوں تک پر محیط ہوتا تھا۔اس دوران ان مچھیروں کے گھروں پر عورتوں کے علاوہ کوئی مرد نہیں ہوتا تھا۔دوسری اہم بات یہ تھی کہ اس قبیلے کی عورتیں حیرت انگیز طور پر حسین ہوتی ہیں اور ان عورتوں کی صحت اس قدر قابل رشک ہوتی ہے کہ ان پر بڑھاپے کے آثار شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں، کوئی بھی عورت 40 50 سال کی عمر اور کئی بچوں کی ماں ہونے کے باوجود نو عمر دوشیزہ نظر آتی ہے۔عبداللطیف نے بتایا کہ فقیرانی جت قوم کے اس قبیلے کی خصوصیات کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ یہ خصوصیات کہانی کا اہم ترین حصہ ہیں۔
عبداللطیف نے بتایا کہ جب اس کے بیٹے عبد الشکور نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لیا تو یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ جھینگوں کے کاروبار اور اس کے رموز سے واقف ہونا چاہتا ہے۔عبدالشکور کی اس خواہش پر عبداللطیف نے اسے اپنی ایک بڑی لانچ کے ساتھ پھیرا لگا آنے کی اجازت دے دی۔عبد الشکور اس سے قبل کئی بار سمندر کی سیر کر چکا تھا لیکن اب جھینگوں کے شکار کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس نے ضروری ساز و سامان جمع کیا۔اور پکنک کے طور پر بڑی لانچ نوری میں سوار ہو گیا۔سمندر کے کنارے آباد بہت سے خاندانوں کے لیے بہت سے (معاہدے کے تحت) ضروری سامان اور اشیائے خرد نوش ایسی ہی لانچوں کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔پہلے دو روز تک لانچ کے ذریعے لایا گیا سامان تقسیم کیا جاتا رہا اور اس کے بعد لانچ سمندر کے اس حصے پر پہنچ گئی جہاں دریائے سندھ سمندر میں جا گرتا تھا۔ اب اس لانچ کو دریا کے بہاؤ کے مخالف چلتے ہوئے دریائے سندھ میں داخل ہونا تھا۔نوری دریائے سندھ میں داخل ہوئی تو لانچ کے ناخدا نے عبدالشکور کو بتایا کہ دریائے سندھ ایک ہی جگہ سمندر میں نہیں گرتا۔بلکہ سمندر تک پہنچتے پہنچتے یہ دریا کئی شاخوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔دریائے سندھ وسیع علاقے کے آس پاس کا احاطہ کرتا اسے کئی حصوں میں تقسیم کرتا ہوا سمندر میں گرتا ہے۔اس علاقے میں آباد قبیلے کی خوبصورت عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے لانچ کے ملاحوں اور ناخدا نے ایسا طلسماتی نقشہ کھینچا کہ عبدالشکور کو خود بھی ان عورتوں کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہو گیا اور جب پہلی مرتبہ ناخدا اور ملاحوں کی معیت میں وہ فقیرانی جت قبیلے کے گاؤں "مطحہ” پہنچا تو یہاں موجود عورتوں کے حسن کو دیکھ کر میں مبہوت رہ گیا۔کوشش کے باوجود وہاں اسے کوئی بوڑھی عورت نظر نہیں آئی۔اس وقت عبدالشکور پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ گئے جب تمتماتے گالوں اور کسی ہوئی جلد کی حامل ایک لڑکی کو اس کے سامنے لایا گیا۔ بظاہر اس لڑکی کی عمر 16, 17 سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس لڑکی کی عمر 36 سال تھی۔اس کے چار بچے تھے۔یہاں جانے کے بعد عبد الشکور کی تو دنیا ہی بدل گئی۔اور کئی روز تک خیالوں میں کھوئے کھوئے رہنے کے بعد اس نے "نوری "کے نا خدا سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایک مرتبہ پھر وہاں جانا چاہتا ہے۔دراصل فقیرانی کی ایک لڑکی عبدالشکور کے من میں بس گئی تھی۔یہ بات بھی بعد میں معلوم ہوئی کہ عبدالشکور کی من پسند لڑکی اس سے چھ سال بڑی تھی۔لیکن ایک نوخیز الہڑ دوشیزہ لگتی تھی۔الغرض اس کے بعد عبدالشکور کئی مرتبہ گیا اور اس لڑکی سے ملتا رہا۔اس لڑکی کا نام بھاگ بھری تھا۔بھاگ بھری بھی عبدالشکور کو پسند کرنے لگی تھی۔کافی عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا،لیکن جب عبدالشکور نے اپنے دوستوں کے ذریعے اپنے باپ کو اپنی پسند سے آگاہ کیا تو اس کہ باپ نے ایک مرتبہ تو اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بیٹے کی ضد پر اس نے جت قبیلے تک اپنی خواہش پہنچائی۔لیکن اس وقت وہ حیران رہ گیا جب بھاگ بھری کے باپ نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ان کے قبیلے کی کوئی عورت قبیلے سے باہر بیاہی نہیں جا سکتی۔عبداللطیف نے روپے پیسے کا لالچ دے کر بھاگ بھری کے باپ کو رام کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی طرح راضی نہیں ہوا۔بھاگ بھری کے باپ نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر اس کے قبیلے کی لڑکی کو قبیلے سے باہر نکالنے کی کوشش کی گئی تو وہ لڑکی اور اسے باہر نکالنے والے کو بھی قتل کریں گے۔اس طرح عبدالشکور بھاگ بھری کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔تاہم وہ لانچوں کے ناخداؤں کے تعاون سے مٹھہ جاتا رہا۔اور بھاگ بھری سے ملتا رہا تھا جس پر حیرت انگیز طور پر کسی کو بھی اعتراض نہیں تھا ۔ضاور پھر ایک روز جب عبدالشکور بھاگ بری سے ملنے کے بعد واپس لانچ میں آیا تو لانچ کے ملاح اور ناخدا نے اسے بہت سمجھایا کہ بھاگ بھری کو دل سے نکال دے لیکن یہ عبدالشکور کے بس کی بات نہیں تھی۔اس رات مٹھہ سے چند میل کے فاصلے پر گہرے سمندر میں لانچ کھڑی تھی اور چند کشتیوں کا انتظار کر رہی تھی جو پروگرام کے مطابق اپنا شکار کیا ہوا جھینگا لانچ پر پہنچانے والی تھیں۔نصف شب کے قریب جب جھینگے کشتیوں سے لانچ پر منتقل کر دیے گئے تو لانچ نے دوسرے” پوائنٹ” کی طرف سفر شروع کر دیا ۔جہاں دوسری کشتیاں اپنا "مال” لانچ پر منتقل کرنے کی منتظر تھیں۔لانچ ابھی ایک میل کا سفر بھی طے نہیں کر سکی تھی کہ ایک ملاح نے ایک چھوٹی ہوڑی (چھوٹی کشتی )کو لانچ کی طرف آتے دیکھا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More