بھارو مل امرانی ؛ صحرائے تھر کا گیانی اور سامی
تحریر : رانا محبوب اختر

بھارو مل امرانی ؛ صحرائے تھر کا گیانی اور سامی
رانا محبوب اختر
بھارو مل، امر کوٹ کا امرانی، گیانی اور سامی ہے۔ تھر کی وسعت، وحشت، بارش، سبزہ، ہرن اور مور اس سے کلام کرتے ہیں۔ چارن، نغمہ گر، بگھت اور صوفی بھارو کے ہمراز ہیں۔ روایت ہے کہ اکبر اعظم بھیس بدل کر میرا کے بھجن سننے گئے ۔ اکبر اور بھارو میں امر کوٹ کی نسبت ہے۔ دونوں نے امر کوٹ کا امرت پیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اکبر بادشاہ جنم بھومی کو اپنی شناخت کا حصہ نہ بنا سکا کہ سمراٹ کی شناخت کے قرینے سامی سے مختلف ہوتے ہیں بھارومل کے لئے امرانی ہونا شناخت کا بنیادی حوالہ ہے ۔
سندھ کا امر کوٹ ریگسان کا دہانہ ہے۔ میرا کے راگ ریگستان کو راگستان بناتے ہے۔ بھارو مل ریگ اور راگ کے جادوئی جہان کا شہری ہے۔ ریگ، ریت اور زمین ہے اور راگ، آواز اور آسمان ہے۔ زمین اور آسمان شاعری میں ملتے ہیں۔ مائی ڈھائی کا ڈھاٹ چارنوں، سگھڑوں اور شاعروں کا وطن ہے۔ رانا ہمیر سنگھ کی وجہ سے امر کوٹ، ہمیر کوٹ کہلایا۔ رانا، امر کوٹ کے بادشاہ کا ٹائیٹل ہے مگر شاہ لطیف کے رانو کی راجدھانی پر مومل کی بادشاہی ہے۔ ہمیر سنگھ سے پیر پتھورو کا یدھ ہوا تو ملتان کے سہروردیوں کی معرفت میگھواڑوں اور افتادگان_ خاک کے حق میں استعمال ہوئی۔ امرکوٹ پر ماروی، مومل، بی بی مٹھاں اور دیول ماتا کے antinomian عرفان کا فیض ہے ۔ بی بی مٹھاں وہ عارفہ ہیں جن کے آستانے پر امر کوٹ کے رانا، پیر ڈان سنگھ سیس نوانے آتے تھے!
کوی راجہ بانکیداس ( 1771-1833) چارن تھے اور انھوں نے مغربی راجستھانی زبان ڈنگل ( قدیم ریگستانی زبان ) میں شاعری کی ہے۔ بانکیداس نے امر کوٹ کے حسن پر بھی چھتیس دوہے لکھے ہیں۔ دوہا ، اشلوک اور بھجن کے خاندان سے ہے جس میں چوبیس ماترے ہوتے ہیں۔ پیر شمس کے اشلوک اسماعیلی ” گنان ” کا حصہ ہیں اور بابا فرید کے دوہے سکھوں کی مقدس کتاب ” گرو گرنتھ صاحب ” میں شامل ہیں۔ دوہوں کی تاریخ میں تقدس کی مابعد الطبیعات شامل ہے۔ ’ہمروٹ چھتیسی‘ کے چھتیس دوہے پنگل اور چھند کے ہندی عروض میں طبعی حسن اور راجپوتوں کی تعریف میں لکھے گئے دوہے ہیں ۔ بشر مرکز دوہے امر کوٹ کی زمین سے پھوٹے ہیں۔ دوہوں کی زبان ، ریگستان اور میرا کی زبان کے قریب ہے ۔ اردو لشکر کی اور ریگستانی( ڈنگل)، چارنوں، بنجاروں اور مقامی troubadours کی زبان ہے ۔ "ھمروٹ چھتیسی ” کا اردو میں ترجمہ کرکے بھارو مل نے میرا کی زبان ہمارے منہ میں رکھ دی ہے۔ دوہے پڑھتے ہوئے لفظوں سے تراشی حسیناؤں کو آپ بانکیداس کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہے۔
اردو اور فارسی سمیت ہر زبان کے شاعر کے لئے عورت کا حسن، مرغوب موضوع رہا ہے۔ چاند چہرہ، کافر قامت ، کشادہ پیشانی، چشم_ دشتی، گیسو، کاکل، کمر، دندان و لب، عاشق کی جنت ہیں ۔ بانکیداس نے امرانے کی حسیناؤں کے حسن کو اپنے دوہوں کا موضوع بنایا ہے۔ محبوبہ کے ہونٹوں کو شاعر نے "کومل راتا پاتلا” کہا ہے۔ کومل ، نازک ، راتا ، لال اور پاتلا ، پتلا ہے ۔ یہ نازک سرخ ہونٹوں کی بات ہے۔ میر صاحب نے اس موضوع پر کیا اچھا کہا ہے:
نازکی اس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
بانکیداس ایک دوہے کے اولیں ماتروں میں امرانے کی حسیناؤں کے ہونٹوں کو "کومل راتا پاتلا” کہتے ہیں جو میر کی پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے، سے ذرا کم جمالیاتی ہے مگر دوسری لائن میں بانکیداس کہتے ہیں کہ ان ہونٹوں کا امرت پینے کے لئے دیوتا بیتاب رہتے ہیں۔ یہی وہ اٹکل اور کلا ہے جو مقامیت کی شاعری کو کلاسیکی شاعری سے ممتاز کرتی ہے۔ امرانے کے انسانی حسن کو دیوتاؤں کی حیات کے لیے امرت بنانا مقامیت کا معجزہ ہے۔ سرائیکی کے شاعر خرم بہاولپوری محبوب کے لبوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
سرخیاں کوں رنگ لائی کھڑن
ہونٹ گلابی یار دے
کیا غضب ہے محبوب کے گلابی ہونٹوں نے سرخی کو رنگ دیا ہے۔ رفعت عباس یار کے سرخی لگانے کے عمل کو ہونٹوں کے یمنی لعلوں کو چھپانے کا جتن کہتے ہیں:
نئیں لکائے ویندے آکھو، اے لال یمن دے
اپنے ہونٹ لکاون کیتے ول ول سرخی لایم
خواجہ غلام فرید سرخی اور کاجل کو یار کو بھولنے کا قرینہ دیا ہے:
سرخی لایم ،کجلا پایم
کیتم یار وسارا
غالب کے ہاں محبوب کے لب اتنے شیریں ہیں کہ رقیب، گالیاں کھا کے بد مزہ نہیں ہوتا ۔ رودکی کہتے ہیں کہ "بے قیمت است شکر از آں دو لبان _ او۔” فردوسی کہ استادوں کے استاد ہیں ، لبوں کے حسن کو محبوب کی ہنسی اور ہونٹوں کی کشادگی میں دیکھتے ہیں:
ہر آنگہ کہ بر گاہ خندہ شود
کشادہ لب و سیم دنداں شود
بانکیداس ان سب نابغوں سے برتر یا برابر تو نہیں، مختلف ہیں اور تخیل کی پرواز کے اعتبار سے فرانسیسی شاعر، شارل بادلئیر کے قریب دکھائی دیتے ہیں ۔ بادلئیر ہونٹوں کے امرت کو مے ناب اور افیم کی مستی پر فوقیت دیتا ہے:
And yet to wine, to opium even,
I prefer the elixir of your lips on which love
flaunts itself;….”
مے و افیون پر محبوب کے ہونٹوں کے امرت کو برتری ہے۔ امرت جس پر محبت اتراتی ہے۔ بانکیداس کا تخیل مگر بادلئیر سے ماسوا ہے:
کومل راتا پاتلا ، ادھر جکاں را ایک
بھیلاسی پیون امر سدھا جام ری سیک
امرانے کی حسیناؤں کے کومل لال پتیوں سے لب ایسے مدھر ہیں کہ ان کا امرت پینے کے لئے انسان تو کیا دیوتا بھی بیتاب رہتے ہیں!
اردو کے قارئین کے لئے اس طرح کے چھتیس دوہے بھارو مل نے اردو میں ڈھالے ہیں ۔ لسانی اعتبار سے یہ ریگستانی اور اردو کا باہمی مکالمہ ہے۔ بانکیداس کے رنگوں کی دنیا اردو قارئین کے لئے سجا کر بھارو مل امرانی نے مقامی زبانوں سے اردو میں ترجمے کی روایت کو تقویت دی ہے، جو عدم مکالمے کی فضا میں درست سمت میں ایک قدم اور قومی خدمت ہے۔ اس کام کے لیے وہ ہم سب کی داد کے مستحق ہیں۔