بکوٹ کے نوجوان نے بٹوہ مالک کو لوٹا کر دیانت کی مثال قائم کر دی

ایمانداری ابھی زندہ ھے
بکوٹ کے نوجوان اور سوشل میڈیا گروپ صدائے سرکل بکوٹ کے رکن رمیزنصیر عباسی سکنہ بکوٹ نے امانت لوٹا کر دیانت کی شاندار مثال قائم کر دی جس پر اہل علاقہ کی جانب سے انہیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے ۔
واقعہ کس طرح پیش آیا؟ تفصیل رمیز نصیر عباسی کی زبانی
آج گاؤں سے واپس جھنڈ کے لئے بکوٹ موڑ پر گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ میری نظر قریب گھاس میں پڑے ایک بٹوے پر پڑی ۔ جب میں نے بٹوہ اٹھایا تو میرے زہن میں کئی خیالات آنے لگے تو پھر میں واپس جا کر ویٹگ چیئر پر بیٹھ گیا اور ایک گہری سوچ کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ یہ بٹوا میں مالک تک ہر صورت پہنچاؤں گا ۔
میں نے اپنے زہن سے شیطانی وسوسوں کو بھگایا اورامانت واپس کرنے کی ٹھان لی .
میں نے بٹوا اس لئے کھولا کے شاید مجھے مالک کی کوئی شناخت مل جائے . جب اسے کھولا تو اس میں سے مجھے اس شخص کا شناختی کارڈ ملا، اب میرے لئے مزید آسانی پیدا ہوگئی تھی۔
پھر میری نظر ایک کاغذ پر پڑی جس پر کافی نمبر درج تھے جس سے میرا کام مزید آسان ہو گیا تھا، اتنے میں پنڈی والی گاڑی آ گئی لیکن میں نے گاڑی کو جانے دیا چونکہ میں نے وہ بٹوہ پہنچانے کا مشن پہلے پورا کرنا تھا۔ پھر میں نے کوشش کر کے بٹوہ مالک سے رابط کیا جیسے ہی میں نے اسکو بتایا کہ آپ کا بٹوہ محفوظ ہے تو وہ خوش ہو گیا اور فون پر ہی مجھے دعائیں دینے لگا .
میں نے ان صاحب کو اپنا پتہ بتایا کہ اس پر آ جائیں، قریبا” ایک گھنٹے بعد وہ میرے پاس پہنچ آئے ۔ میں نے شناخت کے اطمینان کے بعد وہ پرس ان کے حوالے کیا تو یقین جانیے وہ اتنے خوش ھوئے کہ دعاؤں کیساتھ مجھے گلے لگا لیا اور خوشی سے رو پڑے اور جھولی اٹھا کر مجھے دعائیں دینے لگے اور ساتھ ھی انعام کے طور پر مجھے چند ہزار دینے کی کوشش بھی کی لیکن میں نے اللہ کی رضاکیلئے لینے سے معذرت کر لی۔ .
یاد رہے کہ بٹوے میں 50 ہزار سے زیادہ رقم تھی۔ انہوں نے ایک بار پھر مجھے گلے لگایا ،دعائیں دیں اور شکریہ ادا کرتے ہوئے چل پڑے جس کے بعد مجھے جو قلبی اور روحانی سکون ملا جسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔
میرے لئے آج کا دن ایک بہت بڑی خوشی کا دن تھا کہ ایک سفید پوش کی رقم مجھ جیسے گنہگار شخص کے ہاتھوں واپس پہنچ گئی ۔
میرا ضمیر مطمئن ہو گیا اور میں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ میرے رب نے مجھے لالچ سے بچایا .
خیر پنڈی تو نہ جا سکا کیونکہ آخری گاڑی تھی وہ بھی نکل گئی، گھر واپس آیا گھر والوں کو تفصیل بتائی تو میری امی جان بہت خوش ہوئیں، شاباش دی اور ساتھ بہت ساری دعائیں بھی ۔
خیر !!! پوسٹ لگانے کا مقصد یہ ھے کہ اپنی دلی خوشی اور قلبی سکون آپ کو بیان کر سکوں ۔ مجھے اپنے منہ سے میاں مٹھو بنانے کا کوہی شوق نہیں نہ سوشل میڈیا پر مجھے شاباشی لینے کا شوق ھے دلی طور پر بہت مطمئن ہوں.
آج اور جو دعائیں ملیں، انشااللہ دنیا اور آخرت میں میرے کام آئیں گی.