
بکریوں سے جڑی یادیں
بکریوں سے جڑی یادیں
جب سے ہوش سنبھالا گھر میں دو چار بکریاں لازمی دیکھیں۔ جب تک گاؤں میں رہا شاید ہی کوئی ایسا وقت آیا ہو جب گھر میں بکریاں ، بکری کے بچے، مرغیاں مرغے یا چوزے نہ رہے ہوں۔ ہمارے بچپن میں یہ تقریباً یہ ہر دیہاتی گھر کا حصہ ہوتے تھے۔
بکریوں میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت رکھی ہے ۔ بچپن کی باتوں کو یاد کرتا ہوں تو گھر میں اگر دودھ دینے والی ایک بھی بکری ہوتی تو اس کی بڑی برکت رہتی، صبح و شام دو وقت اس سے دودھ مل جاتا، بکری کا تازہ دھویا ہوا دودھ بھی جھاگ سے بھرپور اور ایک مخصوص خوشبو والا ہوتا ہے۔ کبھی ماں جی گرمیوں میں اس کے دودھ میں پانی اور نمک ملا کر کچی لسی بنا دیتیں اور کبھی اضافی دودھ کو کسی برتن میں ڈال کر پانی کے برتنوں والی جگہ میں رکھ دیتیں، جہاں ایک دو دن میں وہ دودھ جم جاتا اور اس جمے ہوئے دودھ (دہی) کو کھانے کے ساتھ کھا لیتا ۔ کبھی ماں جی اسی بکری کے جمے ہوئے دودھ (دہی) کو کسی برتن میں پھینٹ کر لسی بنا لیتیں۔ پکانے کے لیے پتیلی میں ڈالنے کے بعد اگر اضافی لسی ہوتی تو مجھے ، والد صاحب یا باقی بھائیوں کو کبھی کبھی پینے کے لیے بھی مل جاتی۔
بکری بچے دیتی تو اگر ایک سے زیادہ ہوتے تو ماں جی بچوں یا رشتہ داروں کے کسی بچے کی جانب ایک کو منسوب کر دیتیں ، جب وہ بچہ بڑا ہو جاتا تو جس کے نام کیا گیا تھا اس کے حوالے کر دیا جاتا ، اب اگر وہ گھر کا ہی فرد ہوتا تو اس بکری یا بکرے کے فروخت ہونے پر اس کو اس کے پیسے مل جاتے اور اگر گھر سے باہر کوئی رشتہ دار ہوتا تو اس کے حوالے کر دیا جاتا اب اس کی مرضی کے رکھ کر پالے یا بیچ دے۔ میرے اپنے بچوں کی پیدائش تک یہ روایت رہی۔ میرا پہلا بیٹا پیدا ہونے کے بعد جب گاؤں گیا تو ماں جی نے ایک بکرا ہمارے لیے مختص کیا ہوا تھا۔ مجھے بتایا کہ یہ بکرا تمہارے بیٹے کے عقیقے کے لیے رکھا ہوا ہے ذبح کر لو۔ پھر میں نے وہ بکرا ذبح کیا۔ بچے کے عقیقے کا ایک بکرا پہلے کراچی میں ذبح کر چکا تھا۔
ایسے پہاڑی علاقوں میں جہاں برف باری ہوتی ہے گرمیوں میں خوب گھاس اگتی ہے اور بکریاں باہر جا کر چرتی ہیں۔ جبکہ سردیوں کے سیزن کے لیے گھاس کاٹ کر گھر میں اسٹور کر لی جاتی ہے اور برف پڑنے کی صورت میں گھر میں رکھی خشک گھاس انھیں کھلائی جاتی ہے ۔
جبکہ گرمیوں میں گھاس کے علاوہ گھر کے قریب درختوں کے پتے بھی بکریاں شوق سے کھاتی ہیں۔ کبھی میں کبھی افراد خانہ میں سے چچاجان، بھائی ماں جی یا کوئی اور ہماری بکریوں کے لیے پتے بھی توڑ کر ایک بڑی سے چادر میں باندھ کر لے آتا۔
گرمیوں میں پہاڑی علاقوں میں بکریاں چرانا آسان بھی ہوتا تھا اور سہ پہر کے بعد کی ہلکی پھلکی دھوپ اچھی بھی لگتی تھی۔
کسی کی فصل کو خراب نہ کریں یا کسی کے پھل دار پودوں کا نقصان نہ کریں۔ اس لیے بکریوں کو کھولنے کے بعد ان کے ساتھ رہنا یا ان پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔
جن لوگوں کی بکریاں پڑوس کے کسی کھیت کو نقصان پہنچانے پہنچ جاتیں یا پودے کھا جاتیں، کبھی تو پڑوسی نرمی سے بتا دیتے کہ اپنی بکریاں آکر ہماری زمین سے لے جاؤ اور کبھی نوبت لڑائی جھگڑے اور شور شرابے گالم گلوچ تک بھی آ جاتی۔ خیر تو میں بتا رہا تھا کہ۔۔
کبھی ماں جی کہتی کہ بکریاں کھول رہی ہوں ۔تم ساتھ چلے جاؤ تو میں اپنی کوئی کتاب یا چھٹیوں وغیرہ کا کام ملا ہوا ہوتا تو کاپی ساتھ لے جاتا۔ اور کہیں بیٹھ کر تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیتا۔ کبھی بکریاں چرانے کے ساتھ کوئی اکیلے کھیل کھیل لیتا۔
ہمارے علاقے میں ایک طرح کے جنگلی پھل ہوتے ہیں ۔ پیلو جیسے، کانٹے دار جھاڑیوں میں چھوٹی تسبیح کے دانوں کے برابر لگے سمبل، یہ سمبل جب پک کر کالے ہو جاتے تو ان کو چن کر کھانا بھی اپنا ایک پسندیدہ مشغلہ ہوتا تھا۔ شہری علاقوں میں رہنے والوں کے لیے بتا دوں کہ سمجھیں فالسے جیسا ذائقہ ہوتا تھا ان کا، تھوڑا کھٹا، تھوڑا میٹھا۔
کبھی کبھی اسٹیل کی چھوٹی سی بالٹی بھی ساتھ لے جاتا اور اگر کہیں کسی رکھ (چراہ گاہ) میں زیادہ سمبل مل جاتے تو چن کر گھر بھی لے آتا۔
گھر پہنچ کر پہلے ماں جی کی ہدایت کے مطابق انھیں پانی اور نمک سے دھونا لازمی ہوتا تھا ۔ ایک تو تھوڑا نمکین ٹیسٹ ہونے سے ذائقہ اچھا ہو جاتا دوسرا ماں جی کہتی کہ اس پر جرجولا (ایک طرح کی بالوں والی سنڈی جو جسم پر پھر جاتی تو شدید الرجی اور کھجلی ہو جاتی) پھرا ہو گا۔ لہذا صاف کر کے کھاؤ ۔ یہ ساری احتیاطی تدابیر تب ہی ہوتیں جب انھیں چن کر گھر لاتا۔ وگرنہ اکثر تو سمبل کی جھاڑی کے پاس کھڑے ہو کر ہی چگ لیتا تھا ۔
کبھی کہیں ایک پہاڑی بوٹی جسے لسی میں بطور ساگ ڈالا جاتا تھا اسے مقامی زبان میں "مش کنہ” کہا جاتا تھا وہ بھی کہیں نظر آتا تو توڑ کر جمع کر لیتا اور لا کر ماں جی کو دے دیتا۔ میں لسی والا ساگ جب کسی کٹورے میں ڈالے کر گھونٹ بھر بھر کر کھاتا اور اگر منہ میں کسی مش کنہ کا ٹکڑا آجاتا تو بہت اچھا لگتا۔
سب سے زیادہ خوشی بکری کے بچوں کو دیکھ کر ہوتی ہے ۔ کچھ دنوں کے ہونے کے بعد جب ان کی ٹانگوں میں تھوڑی جان آ جاتی ہے تو اچھلنا کودنا ان کا ایک بہترین کام ہوتا ہے ۔ ان کی پھرتی دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ان کے ننھے ، نرم و ملائم اور چمکدار کھالوں والے جسموں میں بجلیاں بھری ہوئی ہوں۔ بچے انسانوں کے ہوں یا بکری کے وہ اپنی خوشی کا اظہار چھلانگیں لگا کر ، دوڑ بھاگ کر ہی کرتے ہیں۔
بکریاں جب دودھ دے رہی ہوں اور ان کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہوں تو بچوں کو دودھ پلانے کے بعد مالکان بکری کے تھنوں پر ایک تھیلی نما کپڑا چڑھا دیتے ہیں ۔ اس کے دو مقصد ہوتے ہیں ۔ ایک تو بکری کے بچوں سے دودھ کو بچانا اگر وہ تھیلا نہیں چڑھائیں گے تو شام کو جب بکریاں چر کر واپس آئیں گی ان کے تھن خالی ہوں گے اور گھر والوں کو چائے کے بجائے سلیمانی قہوہ(کالا قہوا) پی کر گزارا کرنا ہو گا۔ جبکہ بعض خواتین کو یہ بھی فکر ہوتی تھی کہ بکری کے دودھ سے بھرے تھنوں کو کسی کی نظر لگ جائے گی۔
بکریاں چراتے وقت یہ بھی مشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو خطرہ بھانپنے کی حس زیادہ دی ہوئی ہوتی ہے۔ بکریاں جب کوئی سانپ یا گیدڑ وغیرہ دیکھ لیں تو بھاگنا شروع کر دیتی ہیں۔ بارش شروع ہونے سے پہلے ہی وہ چرنا چھوڑ کر بار بار ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیتی ہیں اور جیسے ہی زمین پر بوندیں گرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ اگر گھر قریب ہے تو اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کی کوشش کریں گی اور اگر بارش تیز ہو گئی ہے تو قریب میں ہی کسی بڑے پتھر یا گھنے درخت کی اوٹ میں جمع ہو کر کھڑی ہو جائیں گی۔
بکریاں بڑی کمال کی چیز ہوتی ہیں ۔ ابھی آپ کے پاس ہوں گی، آپ نے ایک منٹ کے لیے ان سے دھیان ہٹایا، پھر مڑ کر دیکھا تو کسی دوسری چوٹی پر پہنچی ہوئی ہوں گی۔ صبر و برداشت اور ٹانگوں کے اس امتحان سے ہر بکریاں چرانے والا لازمی گزرا ہے۔
اپنی بکریاں چرانے کے علاوہ آس پڑوس کی بکریاں کبھی کہیں سے واپس لانے، کبھی ان کو کسی کے کھیت سے بھگانے کا خدمتِ خلق والا کام کتنا کیا ہے یہ یاد ہی نہیں۔
کبھی کبھی ہمارے علاقے جو نسبتاً ہموا جگہ سمندر کھٹہ ہے، وہاں کاغان سائیڈ کے خانہ بدوش چرواہوں کی کوئی ٹولی بھی آ جاتی۔ ان خانہ بدوشوں کے پاس سینکڑوں بکریاں اور بھیڑیں ہوتیں۔ یہ لوگ خیمے لگا لیتے۔ مجھے ان کے خچر اور بڑے بڑے کتے بہت اچھے لگتے۔ اسکول آتے جاتے وقت میں ان کے خیموں کو غور سے دیکھتا اور ان کا منفرد طرز زندگی بڑا اچھا لگتا۔
بڑے ہو کر جب یہ حدیث پڑھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکریاں چرائی ہیں اور ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں. (مطلب ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں) تو یہ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ دل کو ایک اطمینان ہوا کہ چلو اللہ تعالیٰ نے ایک سنت پوری کرائی اور ہو سکتا ہے اس بکریوں کے چرانے میں رب العالمین نے قدرت کے کچھ سبق بھی مجھے لاشعوری طور پر عطا کیے ہوں۔
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ کسی غیر آباد سبزہ زار پر ایک جھگی نما گھر ہو، جہاں دور دور تک کوئی انسان آبادی ہو نہ کوئی سڑک ، بجلی، موبائل ، ریڈیو ٹی وی کچھ بھی نہ ہو۔ سکون اور خاموشی کے لمحات ہوں،چند ایک بکریاں ہوں۔جنھیں لے کر اسی طرح پہاڑوں پر گھوموں ،ٹھنڈے، میٹھے چشموں سے پانی پی کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کروں اور دنیاوی پریشانیوں اور فتنوں سے دور بھاگ جاؤں۔
بکریوں سے جڑی بے شمار یادیں ہیں۔ مگر کچھ دوست انتہائی طویل لکھنے پر ناراض ہو رہے ہیں ۔ اس لیے مختصر لکھا ہے۔
ماضی کے جھروکوں سے
محمد نعیم
14 مئی 2024
پڑھنے والوں میں سے کبھی کسی نے بکریاں چرانے کا خوشگوار تجربہ کیا ہے تو اپنے تاثرات و تجربات سے ضرور آگاہ کریں