بڑے لوگ۔۔۔۔ آصف چاچو مرحوم

تحریر : حبیب عزیز

FB IMG 1724914438123

آصف چاچو مرحوم ہمارے ہردلعزیز پڑوسی تھے۔ ہمیشہ ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملا کرتے تھے۔ بچوں کے ساتھ بچے اور بڑوں کے ساتھ بڑے بن جایا کرتے تھے۔

آصف چاچو کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تھا، تب سے لے کر ان کے دم آخریں تک، ان کے چہرے پر ہمیشہ معصومیت دیکھی۔ ان کے دل کی خوبصورتی ان کے چہرے سے عیاں ہوا کرتی تھی۔۔

آصف چاچو گورنمنٹ ٹیچر تھے۔ پنڈی چکلالہ میں پڑھایا کرتے تھے۔ ساری مدت ملازمت وہیں گزری اور بہت عزت اور وقار کے ساتھ ریٹائر ہوئے۔۔

اس زمانے میں جمعہ کو چھٹی ہوا کرتی تھی۔ ہر جمعرات کی شام وہ گھر آ جایا کرتے۔ ان کا راستہ ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتا تھا۔ ہر جمعرات ان کا خوب صورت ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آتا۔ وہ گزرتے گزرتے سارے گھر کی خیریت معلوم کرتے اور ہم سب بچے انہیں کہتے۔۔۔۔

” آصف چاچو کل صبح ساڑے نال اکھوڑ کھیڑسو نا؟؟

وہ مسکراتے ہوئے حامی بھرتے۔  صبح صبح ہم سب جمع ہوتے اور اخروٹ کھیلتے۔۔ ان کو بچے بہت پسند تھے۔ وہ جان بوجھ کر ہم سے ہار جاتے۔۔ شام کو ہم انہیں ” کٹھے نے ملاچھ ” ناڑے ( پانی کا چشمہ) کے پاس گراونڈ میں لے جاتے اور ان کے ساتھ کرکٹ کھیلتے۔۔۔ مغرب کے بعد ان کے گھر کیرم بورڈ سجتا۔۔ صائم ان کا بڑا بیٹا ہے۔۔ وہ کیرم کھیلتے ہوئے اکثر اسے کہتے۔۔۔

” اوئے صائم ! لورچ نہ کر”۔

یوں آصف چاچو کے ساتھ ہمارا جمعہ بہت خوبصورت گزرتا۔ وہ سارے بچوں کے ساتھ اپنے بچوں جیسا پیار کیا کرتے تھے۔۔ ہفتے کی صبح صبح وہ پنڈی واپس چلے جاتے۔۔

پنڈی کے سکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوا کرتی تھیں، جبکہ ہمارے یہاں سکولوں میں سردیوں میں تعطیلات ہوا کرتی تھیں۔  آصف چاچو گرمیوں میں گھر آتے تو اپنے گھر کے الیکٹریشن، پلمبر، مستری، کسان سب بن جاتے تھے۔ پورے سال کے رکے ہوئے کام اپنے ہاتھوں سے کرتے۔  لیکن ہم بچوں کے ساتھ حسب معمول کھیلنے کے لیے وقت نکال لیا کرتے تھے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں آصف چاچو کے چہرے پر کبھی غصہ نہیں دیکھا۔ وہ اپنے بچوں کے بھی دوست تھے اور ہمارے بھی۔

ایک بار گرمیوں کا رمضان تھا۔ آصف چاچو 29 ویں روزے پنڈی سے گھر آئے۔ مجھے راستے میں ملے تو میں نے کہا آصف چاچو کل عید ہوگی۔ کہنے لگے بیٹا مجھے نہیں لگتا کہ کل عید ہوگی۔ میں نے کہا 100 روپے کی شرط لگاتے ہیں۔ وہ فورا مان گئے اور ہنستے ہوئے گھر چلے گئے۔ اس شام عید کا اعلان نہیں ہوا۔ رات گیارہ بجے پی ٹی وی پر اعلان کیا گیا کہ کل عید ہوگی۔ آصف چاچو عید کی نماز پڑھنے ہمارے گھر کے پاس سے گزرے تو بولے یار اپنا 100 روپیہ تو لے لو۔ میں نے انکار کر دیا۔اتنے خوش ہوئے اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولے،  "پتر شرط حرام ہوتی ہے۔ اس لیے میں شرط کے بجائے عیدی دے رہا ہوں۔ یہ رکھ لو”

ہم اکثر گرمیوں کے رمضان میں آخری روزے کی افطاری کے وقت ایک بڑا سا شیشہ لے کر آصف چاچو کی چھت پر پہنچ جاتے تھے اور سب مل کر عید کا چاند ڈھونڈتے۔

بہت بعد کی بات ہے کہ ایک بار میں اور میرا کزن پنڈی سے گاؤں آ رہے تھے۔ ہمارے پاس صرف 80 روپے تھے، جو ہم دو بندوں کے کرائے کے برابر تھے۔ ہم دونوں کان لپیٹ کر فورڈ ویگن کی سب سے پچھلی نشت پر دور دور ہوکر بیٹھ گئے کہ کوئی واقف کار نہ مل جائے ورنہ اس کا کرایہ کیسے دیں گے۔ اچانک ہم دونوں کے درمیان آصف چاچو آ کر بیٹھ گئے۔ وہ بھی گاؤں جارہے تھے۔ ہم نے سلام دعا تو کی مگر اندر سے گلا خشک ہو رہا تھا کہ اب ان کا کرایہ کیسے ادا کریں گے کیونکہ ہم دو ہیں اور وہ اکیلے۔ کنڈکٹر نے کرایہ مانگا تو ہم دونوں نے جھوٹ موٹ جیبوں میں ہاتھ ڈالا۔ لیکن آصف چاچو نے فورا کرایہ ادا کر کے کہا، "تم دونوں چپ چاپ بیٹھ جاؤ۔ میں بڑا ہوں، کرایہ میں ادا کروں گا”۔ کمپنی باغ جب گاڑی رکی تو ہم دونوں نے بھاگ کر 80 روپے کے کولڈ ڈرنک، پکوڑے، سموسے خریدے اور آصف چاچو کے ساتھ بیٹھ کر مزے سے اڑائے۔ اوسیاہ پہنچ کر ہم دونوں کا حال پاکستان کی معیشت جیسا تھا۔

آصف چاچو بے حد نفیس انسان تھے۔ بہترین لباس پہنا کرتے تھے۔ بہت اعلی خوشبو لگایا کرتے تھے۔ وہ جس راستے سے گزر جاتے تھے وہ راستہ بہت دیر تک مہکتا رہتا تھا۔ بہت سٹائل سے سگریٹ اور سگار پیا کرتے تھے۔
آصف چاچو ریٹائر ہونے کے بعد زیادہ عرصہ نہیں جیے۔
اک دھوپ تھی گئی آفتاب کے ساتھ۔۔۔۔

اللہ تعالی میرے آصف چاچو کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے۔ آمین

FB IMG 1724914448293

لف شدہ تصویر آصف چاچو کی بارات کی ہے۔ یہ اپنے وقتوں کی بہت بڑی بارات تھی۔ اوسیاہ کے بہت نیک نام بزرگ حاجی سید الحمود صاحب مرحوم کے گھر یہ بارات گئی تھی۔ ان کی ہمیشیرہ کی شادی آصف چاچو کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ آج ہم سب کی بوبو ( پھوپھو) ہیں۔ اللہ تعالی انہیں لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔
آصف چاچو کے والد محترم جناب محمد بخش خان مرحوم بھی اپنے وقتوں کی بہت نیک نام بزرگ شخصیت تھے۔ ان کا نمب بدڑھیال میں بہت بڑا خاندان تھا۔ آصف چاچو کے بڑے بھائی چیف محمد اقبال مرحوم اور چیف محمد نواز مرحوم تو پورے گاؤں کی شان تھے۔  اس بارات میں آپ کو اوسیاہ کے بزرگوں کے علاوہ نمب کے بزرگ بھی دکھائی دیں گے۔ ان میں سے اکثر بزرگ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔

یہ روائتی قدیم بارات تھی، جو پیدل چل کر دلہن کے گھر گئی تھی۔ ان باراتوں میں شامل پرانے بزرگوں میں وہ حسن ہوتا تھا جو آج کل کی کسی بارات میں نہیں نظر آتا۔

اللہ تعالی آصف چاچو سمیت تمام مرحومین کی کامل مغفرت فرمائے۔آمین یارب العالمین۔

FB IMG 1723273650835

حبیب عزیز

اوسیاہ، مری
28 اگست 2024

ایک تبصرہ چھوڑ دو