بوہڑ کا ان کہا شکوہ
ان کہا شکوہ
آپ برگد کہہ لیں یا بوہڑ سمجھ لیں، مگر مجھے بوہڑ کہنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ یہ درخت درختوں کی دنیا کا امام اور بزرگ ہے۔
چوآ خالصہ میں یہ "چھنی والی بوہڑ” کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی عمر دس بیس سال نہیں بلکہ سینکڑوں برس ہوگی ۔ اسے دور سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی عمر رسیدہ اور پریشان حال انسان صدیوں سے زرد بال کھولے ویران آنکھوں سے کسی کی راہ دیکھ رہا ہو۔
یہ بوہڑ اب واقعی بوڑھی ہو گئی ہے۔ تنے میں شگاف پیدا ہو گئے ہیں۔ بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ ٹہنیاں کم ہو گئی ہیں اور سایہ تقسیم۔ جیسے بال چر ہو جائے تو بالوں کے درمیان سر میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر خالی جگہیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کا سایہ بھی کچھ ایسا ہی ہو چکا ہے، یہاں ہے اور وہاں نہیں۔
یہ تصویر 8/10 سال پہلے میں نے ہی کھینچی تھی۔ تب اس کے سائے میں بیٹھا تھا اور پھر اس کے سامنے بیٹھ کر دیر تک اسے دیکھا تھا۔ مجھے لگا تھا یہ بوہڑ مجھے کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔
"بہت جی لیا، اب اس دنیا میں رہنے کو جی نہیں چاہتا”
مجھے محسوس ہوا کہ بوہڑ شکوہ کناں ہے کہ کوئی میری دیکھ بھال نہیں کرتا، میری حالت پر غمزدہ نہیں ہوتا۔ کوئی میرے پاس دو گھڑی ٹھہرتا ہے اور نہ ہی میرا حال پوچھتا ہے۔
سب بے سبب جلدی میں ہیں۔ سب میرے پاس سے تیزی میں گزر جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا گلہ یہ تھا کہ میں سب کو دیکھتی ہوں مگر میری طرف کوئی نہیں دیکھتا ہے۔
اس سادہ روح کو کون سمجھائے۔ یہاں دیدہ بینا اب ہے ہی کس کے پاس۔ اب یہاں دیکھنے والے رہے ہی کہاں ہیں۔ بہ قول احمد فراز۔۔۔۔
یہی کہا تھا مری آنکھ دیکھ سکتی ہے
تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا !
ہیلن کیلر نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ کس کی سنتے ہیں۔۔۔
The only thing that is worse than being blind is having sight but no vision
محمد اسماعیل ۔۔۔۔۔ جرمنی