بولتے کیوں نہیں اپنے حق میں
شمائلہ عزیز ستی
ہسپتال میں عورتیں بلڈ پریشر اور وزن چیک کروانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔نک چڑھی فربہ نرس جو صرف اسی کام کے لیے تعینات ہے آنکھیں ماتھے پہ رکھے آلات اور مریضوں کو پٹخے جا رہی ہے ساتھ ہی ساتھ تُو تکار بھی کیے جا رہی ہے۔
"بی بی بازو (آستین ) پیچھے کر ”
"دوپٹہ ہٹا ”
"تیری باری ہے ”
"مٹھی بند کر لے بی بی ”
یہ جملے پڑھنے میں جتنے درشت لگ رہے سننے میں اس سے کئی گنا زیادہ بہیودہ اور زہریلے لگ رہے تھے۔میرے سے پہلے موجود پانچ چھ خواتین نے دل میں برا جان کے زرد چہرے لے کر اٹھ گئیں۔اب میری باری تھی۔میں رک گئی۔
"بی بی آ بھی جا ”
میں نے آگے سے کہا "کیا کہا ؟”
"باری ہے تیری ”
میں جا کے بیٹھی خلاف معمول منہ پھلا کے بولیں۔
"بازو پیچھے کر ”
باہر کا درجہ حرارت 41 سینٹی گریڈ تھا جب کہ میرا بلڈ پریشر خون کھولنے کے بعد شاید 150 کراس کر گیا کہ اے سی کی ٹھنڈک بھی کسی کام نہ آئی۔
"بلڈ پریشر بعد میں چیک کیجیے گا پہلے یہ بتائیں نوکری کرتے کتنا عرصہ ہوا ؟ ”
ہڑبڑا کر "انیس سال ”
"ماشاءاللہ ایک عمر گزر گئی ہے اسی کام میں یہ بتائیں تمام عمر اتنی ہی بدتمیز اور بدتہذیب رہی ہیں ؟ ”
خاتون بوکھلا کر مجھے دیکھنے لگیں۔پھر نرم لہجے میں بولیں۔”میرا لہجہ ہی ایسا ہے۔”
میں نے کہا قطعاً اچھا نہیں۔۔یہ بی بی ،تو تو ،کر، اٹھ بیٹھ ایسا کیوں ۔۔۔۔آپ کو ایک شفٹ میں مریض چیک کرنے کی تنخواہ ملتی ہے اور انیس سال ملازمت کرنے کے بعد تنخواہ اور دیگر سہولیات سمیت آپ سالانہ لاکھوں کماتی ہیں۔پھر کس بات کاغصہ اور یہ کھردرا لہجہ ؟
اے سی میں بیٹھی چھوٹی فرعون کے ماتھے پہ پسینے کے قطرے دیکھے۔بات دہاڑنے سے منمنانے تک آ چکی تھی۔
"آپ کو برا لگا تو سوری ۔۔۔۔عادت ہو گئی ہے ”
میں نے اسی نرمی سے کہا ۔۔”برا نہیں نرس بہت برا لگا ….اخلاق و گفتگو آپ کا خاندانی تعارف ہے۔۔۔۔۔جبکہ اپنے پیشے سے دیانتداری اک الگ معاملہ۔۔۔۔۔خیال رکھا کریں۔میری کسی بات سے دل دکھا تو معذرت ۔۔۔۔۔سلامت رہیں ۔”
تھوک بمشکل نگلتے ہوئے بس "جی ” کہہ سکیں۔
میں نے بازو آگے کیا ۔۔۔”سسٹر بی پی چیک کریں اب ”
اپنے کام میں ماہر نرس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔جیسے تیسے بی پی چیک ہوا میں اٹھ کے نکلی ۔۔۔
پیچھے ایک شفیق آواز گونجی
"آگے آپ آ جائیں بیٹا۔۔۔۔”
اے سی کی ٹھنڈک تسلی بخش تھی۔دروازے پہ کھڑی خاکروب خاتون میرے ساتھ باہر آئیں۔
"بیٹا جو بات میں سالوں میں نہ کہہ سکی آپ نے کہہ دی۔۔۔خوش رہیں۔۔”
یہ اس نوعیت کا اک واقعہ نہیں،کسی بھی ادارے یا جگہ چلے جائیں ایسے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے ۔ہم اور ہم جیسے دوسرے سینکڑوں لوگ جو آگہی اور شعور رکھتے ہیں۔ایسی تو تکار برداشت کرتے ہیں منع نہیں کرتے آگے سے بولتے نہیں۔تو ایسے لوگوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔ایسے کئی چھوٹے بڑے فرعون ہمیں ٹکراتے ہیں۔یا ہم ایسوں کے سامنے چپ کر جاتے ہیں،یا ان سے اونچے درجے پر جا کر دھمکی آمیز گفتگو کرنے لگتے ہیں۔اپنی تعلیم ،عہدے اور طاقت کا زور لگاتے ہیں۔بات لڑائی اور ہاتھا پائی تک آ جاتی ہے۔آپ ایسے منہ زور لوگوں بات کریں مگر اپنے انداز سے ،انہیں خود پہ حاوی مت ہونے دیں۔جہاں جائیں وہاں کے اصول و قواعد پر سختی سے کاربند رہیں۔کوئی فضول بات نہ کریں نہ برداشت لیں۔سامنے والا شخص اپنے فرائض کی پوری پوری قیمت وصول کرتا ہے۔اس کے فرائض میں اک فرض اخلاقیات بھی شامل ہے۔کیونکہ یہ ادارے کی ساکھ کا معاملہ ہے۔کسی ادارے کی پالیسی میں یہ شامل نہیں کہ اس کے ملازمین کی بداخلاقی اور بدتمیزی کی وجہ سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔نہ ہی کسی کو یہ حق پہنچتا کہ آپ کی عزت نفس پر حملہ کرے۔یہ خاموشی اور ڈر ہمیں بزدل بناتا ہے۔۔۔۔۔اک باشعور شخص کی زندگی بزدلی سے نہیں گزر سکتی۔۔۔۔۔۔ہاں اک بات کہ ایسے لوگوں سے نمٹتے نمٹتے کہیں خود ان جیسے مت ہو جائیں ۔۔۔محبت فاتح عالم
رانی کی نکی نکی باتیں
شمائلہ عزیز ستی