بلوچ راجی مچی دہشتگردوں اور جرائم پیشہ مافیا کی پراکسی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچ راجی مچی اور اس کی نام نہاد لیڈر شپ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ مافیا کی پراکسی ہے۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ فوج کسی خاص سیاسی سوچ، زاویے، پارٹی، مذہب اور مسلک کو لے کر نہیں چل رہی بلکہ پاکستان اور ترقی کو لے کر چل رہی ہے، جس میں کبھی نہیں ہچکچائی۔
یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کشمیری قوم کے حق خود ارادیت کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ افواج پاکستان کشمیریوں کو ان کی تمام قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرتی ہے اور ان کی مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے پچھلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حالیہ عرصے میں پاک فوج کے خلاف منظم پراپیگنڈے اور جھوٹی خبروں میں اضافہ ہوا ہے، بڑھتے جھوٹ اور پراپیگنڈے کے پیش نظر ہم نے تواتر سے پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات اور افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہی دیتے رہنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف اب تک رواں سال میں 23 ہزار 622 چھوٹے بڑے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔ صرف 15 دنوں کے دوران ہونے والے آپریشنز کے دوران 24 دہشت گرد واصل جہنم کیے گئے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسورسے نمٹنے کے لیے روزانہ 100 سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، انٹیلیجنس، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک میں فوج کی معاشی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہمارے ہاں تنقید ہوتی ہے۔
حکومت پاکستان نے حال ہی میں ایک اہم فیصلے اور نوٹی فکیشن کے ذریعے کالعدم ٹی ٹی پی کو فتنہ الخوارج کے نام سے نوٹیفائی کیا ہے۔ آئندہ سے اس کو اسی نام سے پکارا جائے گا اور اس سے جڑا ہر دہشت گرد خارجی پکارا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نہ تو کوئی تحریک ہے اور نہ ہی ان کا دین اسلام یا پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں 28 اور 29 جولائی کو ضلع مہمند میں انٹیلی جنس آپریشن کے دوران ایک دہشت گرد کو جہنم واصل کیا گیا۔ اسی طرح ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی انٹیلی جنس کارروائی میں اہم خارجی دہشت گرد کو جہنم واصل کیا گیا، جو 12 دسمبر 2024ء کو دہشت گردی کے واقعے میں سہولت کاری سمیت کئی کارروائیوں میں ملو ث تھا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ 2024ء کے پہلے 7 ماہ میں کاؤنٹر ٹیررازم آپریشنز کے دوران 139 بہادر آفیسرز اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افواج پاکستان قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سکیورٹی ایجنسیز پاکستان کی داخلی اور بارڈر سکیورٹی کو مزید محفوظ بنانے کےلیے کتنی مصروف عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشت گرد اور ہشت گردی کے خاتمے تک جاری رہے گی۔
پاک فوج کے تعلیم و صحت سمیت دیگر شعبوں میں کاموں سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ کاؤنٹر ٹیررازم اور فوجی آپریشنز کے علاوہ افواج پاکستان بالخصوص پاکستان آرمی عوام کے لیے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں کاموں پر انہوں نے بتایا کہ فوج کی خصوصی توجہ کے پی کے کے ضم اضلاع اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں پر مرکوز ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ملکی ترقی میں تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر افواج پاکستان بلوچستان میں تعلیمی وسائل کی ہرممکن فراہمی کے لیے جامع اقدامات کررہی ہے اور اس سلسلے میں مختلف تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پختونخوا اور نئے ضم شدہ اضلاع میں 94 اسکول، 12 ٹیکینکل کالجز کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ان سے تقریباً 80 ہزار بچے تعلیم کی روشنی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اسی طرح یوتھ ایمپلائمنٹ اسکیم ہے، جس کا عنوان تعلیم سب کے لیے ہے۔ اس کے تحت خیبر پختونخوا سے 7 لاکھ 46 ہزار سے زیادہ طلبہ کو انرول کیا گیا ہے، جن میں بہت سوں کا تعلق نئے ضم شدہ اضلاع سے ہے۔ اس کا مقصد طلبہ کو معاشرے کے لیے سود مند بنانے کے لیے اسکلز سکھانا بھی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بلوچستان کے طلبہ ہمارے ملک کا مستقبل ہیں، ایک جامع اسکالر شپ پروگرام بھی وہاں شروع کیا گیا ہے، جس میں پاک فوج کی جانب سے تعلیم کے ساتھ تمام سہولیات اور اخراجات بھی فراہم کررہے ہیں۔ وہاں 60 ہزار طلبہ کو صوبائی اور وفاقی حکومت کے تعاون سے تعلیم دی جا رہی ہے۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایف سی اور پاک فوج کی جانب سے مختلف علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی بہتر سہولیات دینے کےلیے 92 اسکول چلائے جا رہے ہیں جہاں 19 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ افواج پاکستان کے تعاون سے 253 طلبہ کو امارات کی مختلف جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپس بھی دی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی فوج کی جانب سے 171 اسکول اور 3 کیڈٹ کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
صحت کے شعبے سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے ملک کے طول و عرض میں صحت کی بنیادی سہولیات کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں۔ کئی اضلاع میں فوج کی جانب سے میڈیکل کیمپس میں ایک لاکھ 15 ہزار مریضوں کا مفت علاج کیا گیا ۔ جب کہ ہمارا فوکس خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہے، جہاں ہزاروں مریضوں کو مفت علاج کی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں 2024 میں 87 میڈیکل کیمپس لگائے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ پولیو کے خاتمے کے لیے فوج کی طرف سے حکومت کی مہم میں 68 ہزار سے زائد سکیورٹی اہل کار ملک بھر میں تعینات کیے گئے۔
علاوہ ازیں انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی پاک فوج نے اہم اقدامات کیے ہیں۔ پختونخوا میں انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے لیے 3 ہزار سے زیادہ منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔ پاک فوج اور اس کے زیر انتظام اداروں نے صرف 23-2022 میں مجموعی طور پر 360 ارب روپے قومی خزانے میں ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مد میں جمع کروائے۔
بلوچستان کی احتجاجی صورت حال پر صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بلوچ راجی مچی) اور اس کی نام نہاد لیڈر شپ دہشت گرد تنظیموں کی پراکسی ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بدنام کیا جائے، صوبے کے ترقیاتی منصوبوں کو ناکام بنایا جائے۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ بیرونی فنڈنگ پر اور بیرونی بیانیہ پر ایک جتھہ جمع کرو اور اس کے تحت معصوم شہریوں کو رغلا کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرکے پتھراؤ کرکے، جلاؤ گھیراؤ کرکے، بے جا مطالبات کیے جائیں اور جب ریاست اس کا جواب دے تو پھر معصوم بن جاتے ہیں۔ اور پھر بیرونی ایجنڈا والے جو ان کے پیچھے بیٹھے ہیں وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے نام پر یہ آکر بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔
یہی وہ تماشا ہے جسے آپ نے پچھلے دنوں گوادر میں دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان نے مظاہرین سے کہا کہ آپ کا بالکل حق ہے، پرامن احتجاج اور بامقصد تنقید کریں لیکن سڑکیں بلاک نہ کریں، مقررہ جگہ پر آکر دھرنا دیں اور احتجاج کریں لیکن انہوں نے سڑکیں بھی بلاک کیں، لوگوں کو تکلیف بھی دی، زائرین پر پتھراؤبھی کیا اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا اور ایف سی پر حملہ بھی کیا، پرتشدد ہجوم نے ایک ایف سی کے سپاہی کو شہید بھی کیا، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحمل کے ساتھ اس معاملے کو دیکھا۔