بعد مدت کے زندگی سے ملے
ملکہ کوہسار مری کے اندرون شہر کی گلیاں اب کسی بھی گنجان آباد شہر کی گلیوں سے زیادہ مختلف نہیں۔۔۔ ایک کنکریٹ کا جنگل ہے جہاں ویسے ہی ہوٹل، ریستوران، بازار اور دکانیں ہیں جیسے پاکستان کے کسی بھی شہر میں ہوتی ہیں۔ البتہ اونچے نیچے ڈھلوانی راستوں سے گزرتے یا جاتے گرما کی شام میں ہوا کی خنکی کو محسوس کرتے ہوئے یہ ضرور لگتا ہے کہ آپ کسی عام شہر میں نہیں بلکہ چیڑ، دیودار اور صنوبر کی سرزمین پر ہیں، جسے قدرت نے بڑی فیاضی سے حسن عطا کیا ہے۔۔ ایک ایسا سیاحتی مقام جو اب بھی گرمی سردی کے سیزن میں لاکھوں سیاحوں کا ٹھکانہ بنتا ہے۔۔
انہی اونچی نیچی گلیوں سے ہوتے ہوئے میں اور برادرم راشد عباسی مری کی ادبی شناخت کو اجاگر کرنے والے، "مری کے رنگ ہزار” جیسی کتاب کے مولف، بزرگ شاعر و ادیب جناب آصف مرزا کے دولت کدے پر پہنچے، جہاں کچھ ہی دیر میں مرزا صاحب کے فکری ہمزاد جناب امجد بٹ بھی تشریف لے آئے ۔۔اور پھر پرتکلف عصرانے کے ساتھ شروع ہونے والی بے تکلف محفل کئی گھنٹے تک جاری رہی۔
اس محفل میں پہاڑی و اردو ادب، صحافت اور اس کے مختلف ادوار اور اہم شخصیات، تعلیم اور علم و آگہی، کتاب کی اہمیت اور مستقبل، مری میں ادبی سرگرمیوں کا احیاء، مری کی تاریخی عمارات، سرکاری سکولوں کی نجکاری اور اہل مری پر اس کے اثرات، آرٹس کونسل مری، اقبال میونسپل لائبریری مری اور دیگر کئی موضوعات پر سیر حاصل مکالمہ ہوا۔
انتہائی کوشش اور خواہش کے باوجود پروفیسر اشفاق کلیم عباسی صاحب سے ملاقات نہ ہو پانے کے افسوس کے ساتھ ہم ڈھلتی شام کو اجازت لے کر رخصت ہوئے اور رات گئے واپس راولپنڈی پہنچے۔
جناب آصف مرزا کی نظم "شہر آشوب۔۔مری” کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے اور اس شہر سے ان کی محبت بلکہ "عشق” کی وسعت کا اندازہ لگائیے۔۔اس نظم کو "مری کا نوحہ” بھی کہا جا سکتا ہے۔۔
سنو اے سا کنانِ خطہِ پاک
کہانی ہے مری پُرسوز و نمناک
لقب تھا ملکہِ کوہسار میرا
کشادہ تھا بہت دربار میرا
ملا فطرت سے تھا حسنِ فراواں
مجھے ہرگز نہ تھا کچھ فکرِ ساماں
ہمالہ کے گلستاں کی کلی تھی
کتابِ حُسن میں حرفِ جَلی تھی
مگر اب میں سمٹ کر رہ گئی ہوں
کئی ٹکڑوں میں بَٹ کر رہ گئی ہوں
ہے، "لِیرو لِیر” سب پوشاک میری
ہَوا میں اُڑ رہی ہے خاک میری
فضا میں گرد سی پھیلی ہوئی ہے
میری چادر بہت مَیلی ہوئی ہے
وہ میرے قدرداں جانے کہاں ہیں؟
پرانے مہرباں جانے کہاں ہیں؟
بسایا تھا مجھے غیروں نے آ کر
اُجاڑا ہے مگر اپنوں نے کھا کر
یہاں بادل بچے ہیں یا ہوائیں
جو، بس میں ہو اِنہیں بھی بیچ کھائیں
مجھے ہے غیر سے شکوہ نہ کچھ کَد
"کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجاد عباسی