بشارالاسد کے اقتدار کے آخری لمحات،،دھوکہ،مایوسی و فرار
بشکریہ :- رائٹرز نیوز
تحریر :- سامیہ نخولہ، مایہ گبیلی، پاریسا حافظی اور سلیمان الخالد
بشار الاسد نے اپنے فرار سے قبل کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا، بلکہ اپنے مشیران، افسران و رشتے داران سب کو ہی لاعلم رکھا ۔۔ (درجن سے زائد افراد جنہیں واقعات کا علم تھا نے رائیٹرز کو بتایا)۔
فرار سے چند گھنٹوں قبل ہفتے کے دن بشار نے تیس اعلیٰ فوجی و سیکیورٹی حُکّام کے اجلاس میں یقین دلایا کہ روسی فوجی مدد راستے میں ہے اور فوج کو ثابت قدمی کے ساتھ مقابلے کی تلقین کی۔ ایک کمانڈر جو اس اجلاس میں شریک تھا نے بتایا۔
اس کے سولین ملازمین کا بھی یہی حال تھا، کہ بشار نے اپنے صدارتی دفتر کے مینیجر کو کہا کہ وہ کام سے فارغ ہو کر گھر جائے گا لیکن درحقیقت وہ فضائی اڈے پہنچ گیا ۔
اس نے اپنی میڈیا ایڈوائزر بوتھانیا شعبان کو بھی اس کے لئے تقریر لکھنے کے لئے گھر بُلایا لیکن جب وہ اس کے گھر پہنچی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
عرب ریفارم انیشیٹو نامی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ندیم حوری نے کہا۔۔ کہ بشار نے اپنی فوج کا حوصلہ بڑہانے کی ذرا بھی کوشش نہیں کہ ۔۔ اور وہ اپنے حامیوں کو اب مقدر کے حوالے کر کے بھاگ گیا ۔
فرار کے منصوبے کے اخفا کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی ماہر جو کہ فوج کے مامور چوتھے آرمر ڈویژن کی کمان کررہا تھا کو بھی اعتماد میں نہیں لیا ۔ بعد میں ماہر ہیلی کاپٹر کے ذریعے عراق فرار ہوا اور وہاں سے روس پہنچ گیا۔
اپنی بشار کی والدہ بھانجے احاب اور عیاد مخلوف دونوں دمشق میں چھوڑ کر فرار ہو گیا ۔۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے اس کے فرار کی اطلاع ملنے پر ان دونوں نے کار کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش پر راستے میں باغیوں کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کی کوشش میں احاب مارا گیا اور عیاد زخمی گرفتار ہو گیا۔
بشارالاسد آٹھ دسمبر کو طیارے کے ذریعے دمشق سے طیارے کا ٹرانسپونڈر (مسافر طیاروں کا وہ نظام جو کسی بھی ریڈار کو طیارے کی شناخت کرنے میں مدد دیتا ہے ) بند کرکے ریڈار سے بچنے کے لیے انتہائی کم بلندی پر پرواز روسی زیر انتظام حمیم فضائی اڈے پر پھر وہاں سے ساحلی شھر لاٹکیا اور پھر ماسکو پہنچ گئے جہاں بشارالاسد کی اہلیہ و تین بچے پہلے ہی اس کے منتظر تھے۔
دمشق پر باغیوں کے قبضے کے بعد بشار الاسد کے گھر کی شوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیوز سے بھی فوری گھبراہٹ کے عالم میں فرار کا اندازہ ہوتا ہے جہاں پکا کھانا چولہے پر اور ذاتی سامان بشمول فیملئ کے یادگار فوٹو البم بھی چھوڑ دیتے گئے۔
روس و ایران کا فوجی مداخلت سے انکار
روس کی 2015 کی فوجی مداخلت نے خانہ جنگی میں بشار الاسد کی حکومت بچانے میں کلیدی کردار انجام دیا تھا لیکن اس مرتبہ روس اور ایران دونوں ہی نے اس جنگ میں مداخلت کرکے سے احتراز کیا ۔ یہ بات بشار الاسد کو فرار سے کئی روز قبل ہی بتائی جاچُکی تھی کہ جب وہ بیتابی کے ساتھ اپنے اقتدار کو بچانے کی کوششیں کررہا تھا۔
باغیوں کے حلب پر حملے کے اگلے دن ہی بشارالاسد نے 28 نومبر کو ماسکو کا دورہ کیا لیکن اس کی فوجی مداخلت کی درخواست کو نظر انداز کردیا گیا کہ روس فوجی مداخلت کے موڈ میں نہیں تھا۔
لیکن بشار نے واپس جاکر اپنے فوجی کمانڈروں کا حوصلہ بڑہانے کے لیے جھوٹی امیدیں قائم کرنے کے لئے کہا کہ روسی فوجی مدد آرہی ہے جبکہ کریملن نے اسے صاف انکار کردیا تھا۔
کریملن کے ترجمان ڈیمٹری پیشکوف نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ روس نے ماضی میں شام کے استحکام کے لیے بہت کچھ کیا ہے لیکن اسوقت ان کی ترجیح یوکرائن کی جنگ ہے۔
روسی دورے کے چار دن بعد ایرانی وزیرخارجہ نے بشار سے دمشق میں ملاقات کی ۔۔ اسوقت تک HTS کے باغی حلب پر قبضہ کرنے کے بعد تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق بشار اس ملاقات میں بہت پریشان نظر آیا اور اعتراف کیا کہ اس کی فوج انتہائی کمزور اور مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
ایرانی حکام نے بتایا کہ بشار الاسد نے ایران سے فوج بھیجنے کی درخواست نہیں کی کہ وہ سمجھتا تھا کہ ایرانی فوجی مداخلت اسرائیل کو شام میں ایرانی فوج پر یا براہ راست ایران پر حملے کا جواز فراہم کرسکتی ہے۔
مدد کے تمام ممکنہ راستوں کو بند پانے نے بعد بشار الاسد نے ذہنی طور پر سمجھ لیا کہ اب اس کا اقتدار میں رہنا ناممکن ہے، باغی کے حلب و حمص پر قبضے کے بعد دمشق کی طرف بڑھ رہے تھے تو اس نے فرار کی تیاریاں شروع کردیں ۔
اس کی پہلی ترجیح متحدہ عرب امارات تھی لیکن متحدہ عرب امارت نے اسے پناہ دینے سے انکار کردیا ہے کہ کسی ایسے شخص جس پر اپنے شھریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرکے کے الزام میں امریکی و یورپی پابندیاں ہیں کو پناہ دینے پر سفارتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف ایک طرف روس فوجی مداخلت سے احتراز کررہا تھا پھر بھی بشار الاسد کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ روسی وزیرخارجہ نے اس سلسلے میں سفارتی روابط کئے تاکہ بشارالاسد کی زندگی کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ۔ اس سلسلے میں ترکی و قطر سے رابطہ کیا تاکہ ان لین HTS سے روابط کو اس کے روس پہنچنے کے لئے محفوظ راہداری کے لئے استعمال کیا جاسکے ۔
ذرائع کے مطابق روسی وزیرخارجہ کی بھرپور کوششوں کے نتیجے میں قطر و ترکی نے HTS کے ساتھ اپنے روابط استعمال کرکے بشار کے محفوظ روانگی کے انتظامات کئے گئے (جس کی ان ممالک نے رسمی تردید کی کیونکہ HTS کوامریکہ و اقوام متحدہ نے دھشت گرد تنظیم قرار دیا ہے)۔
ماسکو نے پڑوسی ممالک کے ساتھ رابطہ کرکے اس بات کو یقیی بنایا کہ کوئی ملک فرار کے دوران بشار الاسد کے روسی طیارے کو نہ تو نشانہ بنائے گا اور نہ ہی اسے روکنے یا اتارنے کی کوشش کی جائے گی۔
قطر کی وزارت خارجہ نے بشارالاسد کے فرار کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا، جبکہ رائیٹرز کا HTS سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ ترک حکومت کے نمایندے نے بشار کی پرواز کے لئے ترک فضائی حدود کے استعمال کے لئے روسی درخواست کی تردید کی لیکن اس فرار میں HTS کو رخنہ ڈالنے سے روکنے میں اپنے کردار کے بارے کے سوال کا جواب نہیں دیا ۔
بشارالاسد کے آخری وزیراعظم محمد جلالی بتایا کہ ان کی آخری مرتبہ بشار الاسد سے ہفتے کی رات 10.30 بجے ہوئی ۔”ہماری آخری کال میں میں نے انہیں بتایا کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ حمص سے لاٹکیا کی طرف ہجرت کررہے ہیں، سڑکوں پر گھبراہٹ و خوف کا عالم ہے۔۔ اس نے جواب دیا کہ کل دیکھتے ہیں “ جلالی نے سعودی العربیہ ٹی وی کو بتایا ۔ (اسی رات بشار طیارے کے ذریعے فرار ہو گیا)