top header add
kohsar adart

انگلیاں فگار اپنی خامہ خوں چکاں اپنا

انگلیاں فگار اپنی خامہ خوں چکاں ۔۔۔
——————-

اردو میں کہانیاں کہنے والے اور شاعری تخلیق کرنے والے اس زبان کے کتنے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں؟۔۔جوش ملیح آبادی بھی جو چلتی پھرتی لغت تھے اس سوال کا کیا جواب دیتے؟

میں صرف ایک کہانی ” شکاری” متواتر چودہ سال لکھتا رہا۔ حساب کیسے کرتا کہ لفظ کتنے لکھے؟ مگر جب کمپیوٹر صاحب کا زمانہ آیا تو پوتی نے بتایا کہ ‘پی ڈی ایف’ پر یہ 66 لاکھ الفاظ ہوئے۔  گزرے پچاس ساٹھ سالوں میں روز دوپہر کھانے کی میز کرسی پر بیٹھ کے کروڑوں لفظ لکھے۔۔ اس میں ڈالر کے کتنے قلم اور سیاہی کی کتنی بوتلیں خرچ ہوئیں؟

( پوتی کمپیوٹر سے اگلوا سکتی ہے)

تمہید یہ تھی اپنے عجز بیان کی۔۔ کہ پچاس ساٹھ برس تک مشین کا مافک لکھنے والا یہ بندہ اس تمام عرصے میں صرف تین "خاکے” لکھ سکا۔ پہلا تھا ” پگڑی والا” جس کا چند برسوں میں یہ حال ہوا ہے کہ اب کسی وقت کہیں بھی کوئی بھی اس کو کسی اخبار رسالے یا اپنی وال پر لگا دیتا ہے۔ مصنف کا نام نہیں تو نہ سہی۔۔پھر پڑھنے والے یاد دلاتے ہیں کہ یہ تو وہی "اقبالی بیان” والے احمد اقبال کی تحریر ہے۔ شہرہ آفاق عابد علی بیگ صاحب نے اس کو ریڈیو پیکنگ سے ڈرامائی شکل میں پیش کر کے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اب جیسے مجنون صحرا گرد کو لوگ ناقہ لیلی اور سگ لیلی کی نسبت سے جانتے ہیں، کچھ لوگ مجھے ملتے ہیں تو کہتے ہیں "احمد اقبال وہی پگڑی والا؟”۔ (سر پہ تو اب بال کا وبال بھی نہیں تو پگڑی کیسی۔۔۔۔۔)

یوں پکاریں ہیں مجھے کوچہ جاناں والے

ادھر آ بے، ابے او ! چاک گریباں والے

دوسرا خاکہ تھا "اخبار والا”، جو کراچی کے مخصوص حالات کی نذر ہونے کے باوجود اثر کر گیا مگر اب میرے پاس بھی نہیں۔ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا۔ میرا لیپ ٹاپ چوری ہوا تو بہت کچھ نہ رہا۔ تیسرا "استاد محترم” کئی سال قبل یوم اساتذہ پر لکھا گیا تھا۔ آخری نہیں تھا، مگر بنا ہوا ہے۔ اس مصور کی طرح جس نے اپنا شہکار تخلیق کرنے کے بعد موقلم رکھ دیا تھا۔

میں نے قلم رکھا نہیں ہے۔ مجھے ایک اور خاکہ "ٹی وی والا” لکھنا ہے۔ کئی سال سے میں سوچ رہا ہوں کہ لکھوں لیکن کچھ لکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ بات کچھ بنی نہیں تو چھوڑ دیتا ہوں کہ چلو پھر سہی۔ جب آمد ہوگی تب لفظوں میں تصویر یوں اتر آئے گی جیسے نوائے سروش بن کر شاعر پر غزل کی آمد ہوتی ہے۔
اب تک یہ نہ ہوا سو نہ ہوا

اس سے پہلے کی ایک شکست کے زخم کا داغ دل پر ابھی ہے جو پچیس برسوں میں بڑی کوشش کے باوجود مندمل نہیں ہوا۔  میں اپنی ماں کا خاکہ نہ لکھ سکا جس کا عنوان "مہارانی” کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اس عنوان کا نزول مجھ پر ضیاء الدین ہسپتال کے ایر کنڈیشنڈ وی آئی پی روم میں عید کے دن ہوا تھا، جب وہ مہارانی بنی بیڈ پر بیٹھی تھی اور ہم اس کی دوسری تیسری نسل والے سب چھوٹے بڑے زرق برق ملبوسات میں فرش کے قالین پر دستر خوان بچھائے وہ دعوت اڑا رہے تھے جو روایت کے مطابق اس کے گھر میں ہوتی۔

وہ لوٹ کے گھر گئی ہی نہیں، وہاں سے نکلی تو ایدھی کے سرد خانے میں جا لیٹی ۔ جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔ یہ عورت وہی تھی جسے میں نے نصف صدی پہلے نانی کے گاؤں والے ایک کمرے کے کچے گھر میں کچے فرش پر بیٹھ کر ہاتھ کی چکی چلاتے دیکھا تھا۔ میں نے جب بھی قلم اٹھایا لفظ میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ ذہن سے سارے نقش یوں غائب ہو گئے جیسے بریک ڈاون سے ٹی وی کا رنگین متحرک تصویروں والا سکرین بلینک ہو جائے۔

در اصل خاکہ نہ کہانی ہوتا ہے نہ سوانح۔ یہ تودائمی احساس کے روشن رنگوں سے مزین ایک زندگی کی تصویر ہوتی ہے۔ جس میں آپ ایک وجود کو دیکھتے نہیں محسوس کرتے ہیں اور احساس کی یہ روشنی سب کو اسی طرح نظر بھی آتی ہے جیسے خود اپ کی نظر دیکھتی ہے۔ چاندنی کی طرح اور کہکشاں کی طرح اور شفق کی طرح ۔۔ جو ہر آسمان پر دیکھنے والی ہر آنکھ کو یکساں مسحور کرتی ہے

دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے۔

مہلت تمام ہونے سے پہلے میں یہ تصویر بنا لوں گا

احمد اقبال

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More