"انگریزی اور ہم "
مشتاق احمد یوسفی کی ولادت 4 ستمبر 1923ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر ٹونک، راجستھان کے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں ہوئی۔ مشتاق احمد یوسفی نے بی اے کے بعد آگرہ کے مشہور کالج سینٹ جانس میں داخلہ لیا اور وہاں سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ بعد ازاں ہندوستانی پبلک سول سروسز کا امتحان پاس کر کے 1950ء تک ہندوستان میں مسلم کمرشیل بینک سے متعلق ہوئے اور ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
1950ء میں یوسفی بھارت چھوڑ کر کراچی، پاکستان آ گئے اور ایک بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ بینک میں مختلف عہدوں پر کام کرتے کرتے مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ 1974ء میں وہ یونائٹیڈ بینک کے صدر اور 1977ء میں پاکستان بینکنگ کونسل کے صدر نشین منتخب کیے گئے۔ 11 سال تک انہوں نے لندن میں اپنی خدمات انجام دیں اور 1990ء میں کراچی واپس لوٹ آئے۔ 20 جون 2018 کو مزاحیہ ادب کا یہ بے تاج بادشاہ خالق حقیقی سے جا ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے سکول میں چَھٹی کلاس سے اے بی سی شروع کرائی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے تب ہم سب CUP کو "سپ” پڑھا کرتے تھے۔ اس انگریزی کا بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ اکثر ’ٹیچر بھی اسی کو صحیح سمجھتے تھے اور نمبر بھی اچھے مل جایا کرتے تھے۔ میٹرک تک مجھے Unfortunately کے سپیلنگ یاد نہیں ہوتے تھے، پھر میں نے دیسی طریقہ اپنایا، پورے لفظ کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور یوں سپیلنگ یاد ہوگئے۔
زمانہ طالبعلمی میں بھی میری انگلش ایسی ہی تھی جیسی آج ہے۔ سو میں نے ایک ماہر سے انگریزی ٹیویشن پڑھنا شروع کردی۔ موصوف خود بی اے کے سٹوڈنٹ تھے اور بڑی تسلی سے Huge کو “ہیوجی” پڑھایا کرتے تھے۔ الحمد لِلّٰہ ان کی تعلیم کے نتیجے میں ہم دونوں انگریزی میں امتیازی نمبروں سے ناکام ہوا کرتے تھے۔
یقین کیجیے۔۔ جب گورمے ریسٹورنٹ کھلا تھا تو اکثریت اسے ’’گورنمنٹ‘‘ سمجھی تھی۔ آج بھی’’شیورلے‘‘ کار کا نام ’’شیورلیٹ‘‘ زبان زد عام ہے۔ ویسے ایسی انگریزی پڑھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔
”چمِسٹری اور کنالج” سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
میرے ایک دوست کو سخت غصہ ہے کہ انگریزوں نے ہماری اردو پر ڈاکا ڈال لیا ہے اور اب ہر بندہ رومن انگریزی میں اردو لکھنے لگا ہے۔ انہوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے انگریزی کو اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔
پچھلے دنوں ان کے چھوٹے بچے کو بخار تھا، موصوف نے اردو میں انگریزی کی درخواست لکھ کر بھجوا دی۔
”ڈیئر سر! آئی بیگ ٹو سے دیٹ مائی سن از اِل اینڈ ناٹ ایبل ٹو گوسکول، کائنڈلی گرانٹ ہم لیو فار ٹو ڈیز۔ یورس اوبی ڈی اینٹلی”۔
جونہی ان کی درخواست پرنسپل صاحب تک پہنچی انہوں نے غور سے درخواست کا جائزہ لیا، کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک خاتون ٹیچر کو بلایا اور درخواست دکھا کر مطلب پوچھا، خاتون کچھ دیر تک غور سے درخواست دیکھتی رہیں، پھر اچانک ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، کپکپاتی ہوئی آواز میں بولیں ”سر! یہ کسی نے آپ پر انتہائی خطرناک تعویز کرایا ہے”۔
مجھے تسلیم ہے کہ میں انگریزی نہیں جانتا اسی لیے ابھی تک “ڈاکٹرائن” کو لیڈی ڈاکٹر سمجھتا ہوں۔ اللہ جانتا ہے میں تو ایک عرصے تک School کو “سچول” اور College کو”کولیگ” اور Asia کو “آسیہ “ پڑھتا رہا ہوں۔ بلکہ مجھے تو ’ٹیچریں‘ اور ’ٹِچّریں‘ بھی اکثر ایک جیسی ہی لگتی ہیں۔
انگریزی کو ذبح کیے بغیر مزا ہی نہیں آتا۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ ہماری”کیئرلیسِیوں” کی وجہ سے انگریزی کا تلفظ خراب ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے غلط کہتا ہے، انگریزی کی بوٹیاں نوچنے کی لذت بے مثال ہے۔ جو مزا ”موویاں” دیکھنے میں ہے وہ Movies میں کہاں۔ ویسے بھی انگریزی خود بھی ایک پہیلی ہے، بندہ پوچھے جب Cut کٹ ہے، تو Put پَٹ کیوں نہیں؟؟؟ ۔۔۔ مختلف ملکوں کے نام بھی عجیب و غریب ہیں۔”شام “کا نام Evening کی بجائے Syria کیوں ہے؟ یورپ کے سپیلنگ Europe کیوں ہیں بھائی؟ E کہاں سے ساتھ آگیا؟؟؟ بینکاک کو Bangkok لکھنے کا کیا تُک ہے؟ بلاوجہ G اندر گھسایا ہوا ہے۔ یہ سب چیزیں غلط ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ جتنا ہو سکے انگریزی کو ٹھیک کریں !!!