
انڈس کلچرل فورم کے زیر اہتمام مادری زبانوں کا کامیاب قومی ادبی میلہ 2023
تحریر : قمر رحیم خان
"خاص تحریر برائے کوہسار نیوز”
اگر آپ نے کشمیری سیب نہیں دیکھا تو راشد عباسی کو دیکھ لیں۔19,18,17 فروری 2023ء کو پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد میں مادری زبانوں کے میلے کی میزبانی کرتے ہوئے وہ اس قدر خوش تھے کہ محسوس ہوتا تھا مادری زبانوں کا میلہ نہ ہو ان کی اپنی شادی ہو۔ پتہ نہیں ان کی شادی ہو چکی ہے یا ابھی کنوارے ہی ہیں۔ اگر ہو چکی ہے تو سمجھ لیجیے کہ ان کی اہلیہ محترمہ بہت خوش نصیب ہیں۔ لیکن اگر وہ گھر پر بھی مہمانوں کو ایسے ہی اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں جیسے میلے میں پھرتے تھے، تو پھر معاملہ ذرا مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ وہ پہاڑی اور اردو میں شاعر ی کرتے ہیں۔ نثر نگار ہیں۔ صحافی ہیں۔ انجمن فروغ پہاڑی زبان کے چیئرمین ہیں۔ اور یہی نیں پہاڑی زبان میں شائع ہونے والے پاکستان کے پہلے ادبی کتابی سلسلے ‘‘رنتن’’ کے مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ "کوہسار نیوز” کے ایڈیٹر بھی ہیں۔
پہاڑی زبان کی بقا اور ترقی کے لیے ان کی کاوشوں سے کون آگاہ نہیں۔ یہی وہ نسبت ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی قدر و قیمت میں ڈالر سے بھی اونچی اڑان پر ہیں۔ وہ کتابوں سے، اپنے لوگوں سے اور اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے آخری عمر میں سُبل، سرو، ریڑھ اور چیڑھ کے درختوں سے لپٹ لپٹ کر ماہیے گاتے نظر آئیں گے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ وہ حمید کامران (پہاڑی شاعر) کو آواز دیں گے تو وہ مٹی کے گھڑے پر دریا پار کر کے ان سے آ ملیں گے تو انہیں یہ خیال ذہن سے نکا ل دینا چاہیے۔ اس لیے کہ حمید کامران کے حالات کوئی اچھے نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صغیر صاحب بھی حمید کامران کو دور دراز کے اسفار میں اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں۔ میں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ اس کا دم آنکھوں میں اٹکا ہوا ہے۔ اگر اس کی روح ایسے ہی کسی سفر میں پرواز کر گئی تو وہ اس کی اہلیہ کو علی عدالت صاحب کا ‘‘جاسوس’’ لا کر دیں گے؟ میلے میں اصل مہمان حمید کامران ہی تھا۔ راشد عباسی نے اُسے اس زور کی ‘جپھّی’ ماری کہ اس کی آنکھیں سفید ہو گئیں۔ حمید کامران تُو اپنی گھر والی پر کچھ رحم کھا اور ایسی جپھیوں سے بچ بچا کر رہا کر !۔
مہینہ بھر پہلے راشد عباسی صاحب نے فون پر حکم صادر فرمایا کہ اپنی کتاب فلا ں پتے پر بھیج دو۔ میں ذاتی مصروفیات کی وجہ سے حکم کی تعمیل نہ کر سکا۔ لیکن اس کے باوجود ایک رات اشفاق چانڈیو صاحب کا فون آیا اور بتایا کہ میری کتاب ‘‘کرشن چندر نا کشمیر’’ میلے میں شامل ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے میلے میں شرکت کی باضابطہ دعوت بھی دی۔ میرے لیے یہ ایک انہونی بات تھی۔ ‘کہاں میں اور کہاں مسور کی دال’ ۔ پتہ چلا کہ یہ عنایت ممتاز غزنی صاحب نے کی ہے۔ یعنی انہوں نے کتاب راشد عباسی صاحب تک پہنچائی اور سفارش بھی کی کہ اسے میلے کا حصہ بننا چاہیے۔
علی احمد کیانی صاحب نے میری کتاب پر بہت اچھا تبصرہ لکھا تھا۔ جس پر میں ان کا ممنون ہوں۔ وہ شاعری کرتے ہیں، کالم لکھتے ہیں اور وکالت سے بھی وابستہ ہیں۔ ان کی شاعری کی کتاب ‘پیار نے دیوے بال’ بھی ادبی میلے میں شامل تھی۔ لیکن وہ بھی اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث لاہور سے نہ نکل سکے۔ ان کی نمائندگی کوہسار یونیورسٹی مری کے پروفیسر اور پہاڑی زبان کے صاحب اسلوب شاعر اور ایکٹوسٹ جناب اشفاق کلیم عباسی نے اس انداز میں کی کہ شاید علی احمد کیانی خود بھی نہ کر سکتے۔
ممتاز غزنی بھی پہاڑی زبان کے فروغ کی کوششوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ پہاڑی زبان میں شاعری اور نثر لکھتے ہیں۔ اردو بھی کمال لکھتے ہیں۔ تین چار کتابیں لکھ چکے ہیں اور کچھ زیر طبع بھی ہیں۔ بدقسمتی سے پہاڑی ادب آزاد کشمیر میں ابھی گھٹنوں کے بل چل رہا ہے۔ پہاڑی لکھنے والے خود ہی لکھتے ہیں، گھمبیر مسائل اور تنگی وقت کے باوجود اپنے خرچے پر خود ہی کتابیں چھاپتے ہیں، مفت تقسیم کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خود ہی ان کتابوں کو پڑھتے اور محظوظ ہوتے ہیں کیونکہ قارئین تو لیلیٰ انگریزی کی زلفوں کے اسیر ہیں جو ان کی رسائی سے کوسوں دور ہے لیکن آخر ہمارے آقا کی زبان ہے اور کچھ آداب غلامی بھی تو ہوتے ہیں اس لیے ہم مستقل مزاجی سے بدستور اپنی نسلوں کو علم و تحقیق کے بجائے انگریزی کی غلامی کا سبق پڑھا رہے ہیں
سب نے لاکھ سمجھایا کہ بھلا ایسے گناہ کی کیا ضرورت ہے جس میں اپنی ہی دنیا خراب ہو اور کسی دوسرے کا بال بھی بیکا نہ ہو لیکن ممتاز غزنی کہاں باز آنے والے ہیں۔ ویسے بھی جو مئے علم و دانش کا عادی ہو جائے وہ لاکھ کوشش کر لے "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی”. ممتاز غزنی نے اس بار ادب اطفال کا انتخاب کیا اور سبق آموز کہانیوں کی کتاب ‘‘سکھّاں’’ شائع کی جو ادبی میلے میں بھی شامل تھی۔ میں نے سترہ فروری کو پی این سی اے اسلام آبا پہنچ کر پہلا فون انہیں ہی کیا۔ جواب ملا کہ وہ نوکر آدمی ہیں ، کل ہی بہ مشکل آسکیں گے۔ لیکن دوسرے دن بھی انھیں چھٹی نہ مل سکی۔ ان کی کتاب کا تعارف مسعود حنیف نے کروایا۔
مسعود حنیف سے سترہ فروری کو جب پہلی ملاقات ہوئی تو لگا کہ وہ کوئی گوجر ہے، جو ڈاکٹر صغیر صاحب کی خبر ملنے پر بکریاں چھوڑ کر ڈاکٹر صاحب کے نیاز حاصل کرنے آ گیا ہے۔ دوسرے دن پتہ چلا کہ وہ ایک اخبار کا چیف ایڈیٹر ہے۔ میں نے اسے غور سے دیکھا ۔ شکل و صورت، بات چیت، غرضےکہ کسی اعتبار سے بھی صحافی نہیں لگتا تھا۔ عینک اور قلم سے لگتا تھا صحافیوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ البتہ جب اس نے اکیس فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر پہاڑی زبان کا پہلا ایڈیشن شائع کیا تو معلوم پڑا کہ دماغ بھی رکھتا ہے۔ ورنہ کوئی اُس پر نمک بھی لادنے کو تیار نہ ہو۔ اچھا خاصا وزن اٹھا سکتا ہے۔ کہہ رہا تھا کہ اگلے ہفتے راولاکوٹ آؤں گا۔ میں ایک بیلچہ اپنے لیے اور ایک ڈاکٹر صغیر صاحب کے لیے لے رکھوں گا۔ دیکھتے ہیں ، اس کی کمر ٹوٹتی ہے یا ہماری؟
میلے کے پہلے سیشن میں ان لکھاریوں کو لائف اچیومنٹ ایوارڈز سے نوازا گیا جنہوں نے اپنی مادری زبان کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے۔ پہاڑی زبان میں یہ ایوارڈ ڈاکٹر صغیر صاحب کے حصے میں آیا۔ انہوں نے تقریبا تمام اصناف پر پہاڑی زبان میں کام کیا ہے۔ پہاڑی زبان لکھنا از خود ایک مشکل کام ہے۔ پھر اس زبان میں افسانہ، ناول، نظم، غزل، سفر نامہ ڈاکٹر صغیر جیسے باعزم لکھاری ہی کا حصہ ہے۔ میلے میں ان کا سفر نامہ ‘‘اندرے ناں پینڈا’’ شامل تھا۔ اس کے علاوہ ناول کے سیشن کی صدارت بھی انہوں نے ہی فرمائی۔ اس سیشن میں علی عدالت صاحب کا ناول ‘‘جاسوس’’ بھی شامل تھا۔ علی عدالت پہاڑی کے اولین لکھاریوں میں سے ہیں۔ بستے ولایت میں اور رہتے کشمیر میں ہیں۔ ان کے ساتھ شمس رحمان صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ شمس صاحب برطانیہ کی کشمیر کمیونٹی میں نمایاں ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ جموں کشمیر ٹی وی کے نام سے ایک چینل چلا رہے ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا اور جینا مرنا کشمیر کے لیے ہے۔ اللہ تعالی ہمیں مرنے سے پہلے کشمیر کی آزادی کا دن دکھلا دے۔
تین دن جاری رہنے والے اس ادبی میلے کا انعقاد ‘انڈس کلچرل فورم’ نے کیا تھا۔ جس کا انعقاد گزشتہ آٹھ برس سے کامیابی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ انڈس کلچرل فورم کی تشکیل کا مقصد مادری زبانوں کا تحفظ اور فروغ ہے۔ فیسٹیول میں پاکستان اور آزادکشمیر کی ان تمام زبانوں کی نمائندگی موجود تھی جن میں ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ میلے کا فارمیٹ یہ ہے کہ جس بھی زبان کی ادبی کتاب اس سال چھپتی ہے اس کی اطلاع آئی سی ایف کو دی جاتی ہے اور کتاب بھی بھیجی جاتی ہے۔ معیار کا جائزہ لے کر متعلقہ کمیٹی کتاب کو میلے کا حصہ بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ بعض اوقات بہت معیاری کتاب بھی میلے کا حصہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس موضوع پر دیگر کسی زبان میں کوئی کام نہیں ہوا ہوتا اور فقط ایک کتاب پر ایک سیشن رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ انڈس کلچرل فورم کی ایک عشرے پر محیط کوششوں سے اب ادب کی تقریبا تمام اصناف پر مادری زبانوں میں کا م ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان زبانوں کے کینوس میں روز افزوں وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ اور نہایت خوش آئند امر یہ ہے کہ اب مادری زبانوں میں بہترین ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ پاکستان کے سیاسی حالات بھی ہیں۔ احساس محرومی کا شکار مختلف اکائیوں کے لوگ اپنی شناخت کو بچانے، اپنی قومیت یا قومی سوال کو اجاگر کرنے اور اس کو جائز مقام دلانے کے لیے اپنی زبان اور کلچر پر کا م کر رہے ہیں۔ پاکستان کی تمام اکائیوں کو جوڑ کر رکھنے کے حوالے سے یہ ایک اہم کام ہے۔
کلیدی خطبے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کی مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ ساری قوموں یا قومیتوں کے کلچر کو تسلیم کر کے ان کے سیاسی، معاشی اور تہذیبی حقوق بحال کیے جائیں۔ تا کہ پاکستان کو انیس سو اکہتر جیسے کسی اور سانحے سے بچایا جا سکے۔
جہاں تک پہاڑی زبان کا تعلق ہے، اس کی ایک مشکل یہ ہے کہ کچھ حلقوں میں اسے پنجابی کی ایک شاخ کہا جاتا ہے۔ یہ غلط فہمی اس وقت پیدا ہوئی جب Linguistic Survey of India میں اسے پنجابی کی مغربی شاخ کہا گیا۔ حالانکہ لسانیات کے دیگر سکالرز نے اس رائے سے مکمل اختلاف کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پہاڑی ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی ایک قدیم زبان ہے جو پندرہ سو قبل مسیح سے ایک مکمل زبان کے طور پر اپنا معیار اور وقار رکھتی ہے۔ اور یہ زبان مختلف لہجوں میں نیپال، اترا کھنڈ، ہماچل پردیش، بھارتی مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، مری، ایبٹ آباد اور کے پی کے کئی دیگر علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ بھارت اور نیپال میں اس پر بہت کام ہوا ہے۔ یہ نیپال اور ہندوستان میں نصاب میں شامل ہے اور ادب اور فلم انڈسٹری میں اس پر کافی کام ہوا ہے۔ البتہ آزادکشمیر اور پاکستان میں عدم شعور اور احساس کمتری کی وجہ سے اس پر سرکاری سطح پر کوئی کام نہیں ہو سکا۔ اس زبان کی بقا کے لیے ساری جدوجہد انفرادی سطح پر ہوئی۔
میں کوہسار کے صاحبان جاہ و حشم سے گزارش کرتا ہوں کہ اگلے میلے کے کم سے کم پچاس فی صد اخراجات آپ برداشت کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اورسیز پاکستانی کمیونٹی سے بھی درخواست کروں گا کہ اگر وہ ماہانہ پچاس ڈالر/پاؤنڈ ممبرشپ رکھ لیں اور صرف سو ممبر اس مشن میں شامل ہو جائیں تو شاید میلے کے آدھے اخراجات اس طرح پورے ہو جائیں۔
میں یہاں کلچر ڈویژن، آزاد کشمیر حکومت سے بھی گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ بھی انڈس کلچرل فورم کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان حکومت کی طرح فراخ دلی سے مالی معاونت کریں۔
یہ قومی ادبی میلہ پاکستان کی تاریخ کا اہم میلہ ہے۔ جو ایک طرف زبانوں کی بقا اور ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے تو دوسری طرف ہم جیسے لوگوں کو احساس کمتری اور ذہنی غلامی سے نکال کر اپنی زبان اور کلچر پر کام کرنے کی موثر ترغیب کا باعث بھی ہے۔ میں انڈس کلچرل فورم کے تمام ذمہ داران خصوصا چئیرمین ڈاکٹر منظور سومرو، جنرل سیکرٹری اشفاق چانڈیو، منور حسن، راشد عباسی اور ان کی ٹیم کو مادری زبانوں اور ان کے کلچر کی اس عظیم خدمت پر سلام پیش کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قمر رحیم خان ۔۔۔۔ راولاکوٹ ، آزاد کشمیر