انسانی شعور کا سفر اور انسانی تعظیم اور تکریم کی منزل۔۔
تحریر : خیر زمان راشد
انسانی شعور کا سفر اور انسانی تعظیم اور تکریم کی منزل۔۔
آپ کو اگر بنیادی انسانی اور تہذیبی شناختوں کا چیلنج درپیش نہیں تو آپ تھوڑی سی کوشش سے اپنے شعور کو اتنا بلند کر سکتے ہیں کہ ہم دنیا کے شہری شمار ہوں۔
میرے خیال میں جمہوری اور انسانی رویوں کی تعمیر و تشکیل کے لیے انسان نے بڑی قربانی دی ہے۔ وہ رویے یہی ہیں کہ آپ کو اپنی روایات، زبان، لباس اور اپنی ثقافت پر عمل اور فروغ کا اختیار رہے۔ لیکن آپ کو یہ اختیار نہیں کہ اپنا مذہب اپنی روایت اور اپنا کلچر مسلط کریں اور اس کے لیے اپنی عوام کو انتہا پسندی تک لے جائیں ۔
جدید دور کے انسان کو یہ سیکھنا ہوگا کہ تکثیریت اور رنگا رنگی ہی انسانیت کا، تہذیب کا اور تمام دنیا کا حسن ہے ۔
شعور کے اس مرتبہ و مقام پر آپ تسلط پسندی، توسیع پسندی، خبط عظمت اور مذہبی غلبہ جیسی چیزوں کو ثانوی سمجھیں گے اور ان آرزوؤں کو صرف اپنی حد اور ثقافتی ڈومین تک اپنی ایک تمدنی اور عائلی ضرورت سمجھیں گے اور عمل پیرا ہوں گے۔ دوسرے مذاہب، ثقافتوں اور قوموں سے سینگ اڑانے اور قبضہ گیری کی ہوس کو صرف بلند انسانی شعور ہی مات دے سکتا ہے۔ جب ہم شعوری طور پر دنیا کو ہر رنگ، ہر مذہب اور ہر ثقافت کے انسانوں کا مشترکہ ورثہ قرار دے چکے ہوں گے۔۔
یہ شعور ہوگا تو ہم اپنی سوچ، فکر، اپنے مذہب اور منشور کی طرف جبر سے یا ترغیب سے راغب کرنے کی غیر ضروری کوششوں سے پیچھے ہٹیں گے ۔۔
اور تب ایک ترقی پسند، روشن خیال اور آزاد عالمگیر انسانی معاشرہ تشکیل کر سکیں گے۔ جہاں ہر انسان اپنی حدود پہچان کر جیے گا۔۔ یہی ثقافتی، مذہبی اور سیاسی تنوع گلوبل تہذیب کا حسن شمار ہوگا۔۔ ممکن ہے انسانی ترقی کائنات میں دریافت ہونے والی کسی اور آبادی کے لیے بھی مثال اور لائحہ عمل بن جائے۔۔۔
اس نسل کے آپ وہ عظیم فرد ہوں گے جس کی ترجیحات میں انسانی تکریم ہوگی، انسان کی تعظیم ہوگی۔ جس کے مشن میں احترام ہوگا۔ جس کے اب و جد نے انسانیت کو اس معراج تک پہنچانے میں خود کو کھپایا ہوگا ۔۔
بلند انسانی شعور میں ہر شخص دوسروں کے لیے مفید رہے گا، قبولیت ہوگی ۔ دوسروں کو رد کرنا اور کھینچا تانی اس کے ہاں غیر ضروری شمار ہوگی ۔۔۔
غیر ضروری طور پر اپنے اپنے لیے سپیس ہونے کے باوجود بھی دوسروں کو جینے نہ دینا یہ وہ عارضہ ہے جو دنیا میں، سماج میں اور حتی کہ دو انسانوں کے درمیان بھی بڑے بڑے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔۔۔
انسانی شعور ان منفی رویوں کو عالمگیر اور امن کے ضامن رویوں میں بدلے گا۔۔۔یہی انسانیت کی معراج ہوگی ۔۔ اگرچہ یہ صبرِ آزما شعوری جنگ ہے۔
جنگ آزمائی، مظالم اور قبضہ گیری کی وجہ سے انسانیت دکھوں کے سمندر میں ہے۔ اور چار دانگ عالم ایک آگ لگی دیکھتی ہے۔ جسے مذہب سیاست اور تسلط پسندی کا ایندھن مل رہا ہے۔۔ اس کے خلاف نوع انسان کا بلند اور عالمگیر شعوری احساس ہی کار آمد ہوسکتا ہے۔۔ لیکن یہ جدوجہد خوں بہانے سے زیادہ صبر آزما اور کہیں زیادہ استقامت کا تقاضا کرتی ہے۔۔
ہر زمانے میں یہ خواب دیکھنے والے موجود رہیں گے۔ آج بھی ہیں اور ہم اسی اقلیتی قبیلے کے کارواں میں ایک وجود ہیں۔ یہ آوازیں کم ہیں لیکن شور نہیں شعور ہے اور شعور کی انرجی علم، مطالعہ، تجزیہ، آرٹ، فطرت سے محبت اور انسانی تکریم اور احترام ہے۔۔
خیر زمان راشد
مظفرآباد