انتخابات یا مارشل لا۔۔؟——- سراج احمد

تحریر:سراج احمد
5نومبر2022
پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران جس نے ملک میں ایک بے یقنی کی صورتحال پیدا کی ہوئی ہے جہاں وہ ایک عام آدمی کے ذہن کو متاثر کررہا ہے، وہیں پر ملک کے عام آدمی کے مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے، وطن عزیز کے لوگ موجودہ سوشل میڈیا کے دورممیں سیاسی شعور کے بجائے سیاسی عقیدت کاشکار ہوچکے ہیں یہ بات شاہد بہت سے لوگوں کو بری لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی عقیدت سیاسی شعور کی موت ہے بیانئے کی جنگ نے دلیل اور مثبت بحث کو ختم کردیا ہے، سیاسی بیانیہ بنانے میں گوبلز کی تھیوری کا کامیاب استعمال ہورہا ہےجس کے مطابق جھوٹ اتنا بولو کے سچ لگنے لگے کا کامیابی سے استعمال ہورہاہے کسی بھی چیز کو بغیر سوچے سمجھے کٹ پیسٹ کرکے اسے سچ ثابت کرنا اور اس پر ڈٹ جانا ہماری فطرت کا جزو بن چکا ہے ہم اب بحث قائل کرنے کے لئے نہیں بلکہ مخالف پر فتح کی نیت سے کرتے ہیں
فوجی اسٹیبلشمنٹ جو چند عرصے پہلے ایک سیاسی جماعت کی ڈارلنگ اور دوسری سیاسی جماعت کی ولن تھی اور اچانک بیانے تبدیل ہوگئے جو مخالف تھے اور اسٹیبلشمنٹ کی تائید اور مخالف بیانیے کے حامیوں کو وطن غدار قرار دینے لگے جو کچھ عرصے قبل حامی بیانیے کے لوگ تھے
ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ سیاسی عقیدت کی اندھی تقلید نے سیاسی شعورکو پنپنے نہیں دیا اور روز اول پاکستان کی تشکیل کے ساتھ ہی جب سیاسی لڑائی تھکانے لگتی ہے تو سیاست دان ماورائے آئین قوتوں کو اقتدار کی دعوت دنیا شروع کردیتے ہیں چاہئے وہ گورنر جنرل ہو یا فوجی آمر ہو اور سیاست دانوں کے اختلافات کو آمر شخصیات فورا اپنے مفادات کے استعمال کرنے پر کے لئے تیار رہتے ہیں اور آئین کی محافظ عدلیہ نے ماضی میں ہمیشہ ماورائے آئین اقدامات پر نظریہ ضرورت کی مہر ثبت کرکے اسے قانونی جواز دی ا ور آئین میں موجود
آئین توڑنے کی سزا کو ساقط کردیا۔
موجودہ صورتحال میں بھی ہیجان پیدا کرکے آئین سے ماورائے اقدامات کا مطالبہ کیا جارہا ہے، ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے انتخابات کے مظاہرہ پر اپنی جدوجہد شروع کی تھی، اب اس میں کتنی ملکی اورغیر ملکی قوتیں ملوث تھیں یہ اب سب کے سامنے آشکار ہوچکا ہے لیکن اس میں سب سے شرمناک بات یہ تھی کہ جب ذوالقفار علی بھٹو نے حزب اختلاف کے مطالبے پر گھٹنے ٹیک دیے اور انتخابا ت کا مطالبہ مان لیا تو صرف دو گھنٹے بعد ہی عزیز ہم وطنو کی تقریر ہوگئی جبکہ انتخابات کا مطالبہ طویل عرصے تک اپنی موت آپ مر گیا۔۔بھٹو کے مخالفین صرف اس بات پر خوشیاں مناتے رہے کہ انہوں نے حکومت ختم کرکے بھٹو کو نہ صرف حکومت سے علیحدہ کردیا بلکہ اس کو دنیا سے بھی روانہ کردیا۔۔
سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو موقع پرست لوگ حکمرانوں کے قریب آجاتے ہیں اور سیاسی جماعت کا عوام سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہوجاتا ہے اور عوام اپنی قیادت سے دور ہو جاتی ہے ۔۔اورجب کسی ردعمل پر عوام کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لاتعلق ہوجاتے ہیں ۔۔یہی ذوالفقار علی بھٹواور نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا۔ بھٹو کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بڑے بڑے جلسے بھی ہوئے لیکن ان کی گرفتاری اور پھانسی کی سزا کے بعد ان کے قریبی رفقا نے عوام کو متحرک کرنے میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا ۔۔ نواز شریف نے بھی اقتدار سے علیحدگی کے بعد عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کی اور خاصے حد تک کامیاب بھی رہے لیکن وہ بھی اس لہر کو زیاداہ عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکے۔۔لیکن موجودہ صورتحال میں ایک آئینی طریقے سے حکومت جانے کے بعد عمران خان نے بہت ہی کامیابی سے اپنا بیانیہ بنایا۔۔عمران خان کے پاس سوشل میڈیا کے جنگجوؤں کی کامیاب ٹیم ہے ۔۔اور موجودہ ٹیکنالوجی کے دور میں ان کا سب سے کامیاب ہتھیار بھی یہی ہے ۔بھٹو اور نوازشریف کے مقابلے میں اس وقت عمران خان کی تحریک زیادہ کامیاب ہےعمران خان کو اس وقت سب سے بڑا ایڈوانٹیج سوشل میڈیا کا ہے، جہاں پر بے خوف جنگجو ان کے بیانیے کو کامیاب بنا رہے ہیں سوشل میڈیا کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں ماورائے آئین ہاتھ انتہائی محتاط ہے، اور کھل کر کوئی کارروائی نہیں کررہا ہے۔۔جس سے اینٹی اسٹیبلشٹ بیانیے کو اور مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔
تحریک انصاف کے کامیاب جلسوں اور انتخابات میں مسلم لیگ ن کی نیم دلی سے شرکت نے عمران خان کی کامیابی ان کے بیانئے کو مزید تقویت دے رہی ہے، اور اب وہ للکار کر گرے ایریا میں بھی چیلنج کررہا ہے۔یہاں پر ان کے حق میں وقت کا چناؤ بھی سازگار ہے،اسٹیبلشمنٹ کے اندرون خانہ لوگوں کے مطابق جب آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا اعلان ہوجاتا ہے تو بنیادی نوعیت کے فیصلے رک جاتے ہیں ، اس وقت فوج مخالف بیانیے پر آئی ایس پی آر بیانات کی حد تک تو متحرک ہے لیکن بادی النظر میں آہنی ہاتھ کا استعمال نظر نہیں آرہا، جبکہ ماضی میں فوج مخالف بیانیے کی کوشش کے ایک بیان پر صدر آصف علی زرداری کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور انہیں میمو گیٹ اسکینڈل کا بھی سامنا کرنا پڑاجبکہ نواز شریف کو ڈان لیکس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا اور تاحیات نااہلی تک جاپہنچے۔
وطن عزیز کی خوش گھمان لوگوں کا خیال ہے کہ مارشل لا ملک کے دروازے پر دستک دے رہا ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ملک میں جتنی بھی کامیابی فوجی بغاوتیں ہوئی وہ آرمی چیف کی قیادت میں ہوتی ہیں ،یہ تاریخ ہے کہ جب بھی کوئی آرمی چیف جمہوری حکومت کا تختہ الٹتا ہے تو وہ کامیابی کی شکل اختیار کرکے انقلاب بن جاتا ہے، اور عدلیہ بھی اسے جائز قرار دے دیتی ہے، لیکن حالات بدلنے کے لئے یہی کوشش جب کسی جرنیل یا فوجی افسران کی جانب سے کی جاتی ہے تو وہ ناکام ہوجاتی ہے، پاکستان میں حکومت صرف اس وقت بدلتی ہے جب فوجی افسروں کو آرمی چیف کی حمایت حاصل ہو۔۔
قیام پاکستان کے بعد فوجی بغاوتوں پر نظر ڈالی جائے تو پہلی بغاوت 1951میں ہوئی۔جیسے راولپنڈی سازش کیس کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں میجر جنرل اکبر اور ان کے ساتھیوں نے یہ بغاوت اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کے خلاف کی تھی ، اس فوجی ٹولے کا خیال تھا کہ حکومت مسئلہ کشمیر میں جنگ بندی کرکے مصالحت سے کام لے رہی ہے جس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ہے۔پاکستان کی پہلی کامیاب فوجی بغاوت ایوب خان نے 1958میں کی۔جب وہ فوج کے سربراہ تھے، ایوب خان کے کمزور ہونے کے بعد اور ان سے استعفیٰ لینے کے بعد دوسری کامیاب فوجی بغاوت اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل یحیی خان نے 1969میں کی۔انہوں نے جمہوری طاقتوں کو اقتدار دینے کے بجائے ملک پر مسلط رہنا پسند کیا جس سے ملک دو لخت ہوگیا، بعدازاں ملک دولخت ہونے کے بعد اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا گیا جوپہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹر بنے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نوجوان فوجی افسران جو کہ بھٹو کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب سمجھتے تھے، 1973میں ناکام بغاوت کی، جیسے اٹک سازش کیس کے نام سے جانا جاتا ہے، 1977میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیا الحق نے جمہوری حکومت کا تختہ اس وقت الٹا جب حکمراں ذوالفقار علی بھٹو نے حزب اختلاف کے مطالبات مانتے ہوئے انتخابات پر رضامندی ظاہر کی ۔1980میں جنرل تجمل حسین نے جنرل ضیا الحق کی حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی، اس طرح ضیا الحق کے دور میں 1984میں ایسی ہی فوجی اور سویلین بغاوت ناکام بنائی گئی ۔جس کے لئے بتایا جاتا ہے کہ اسلحہ بھارت سے لایا گیا تھا۔1995میں اس وقت کے باغی ارکان جس کی قیادت میجر جنرل ظہیرالسلام عباسی اور بریگیڈیٹر مستنصر بلا نے اسلامی انقلاب لانے کے لئے ناکام فوجی بغاوت کی۔1999میں پھر چیف آٖف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نوازشریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا
ان تاریخی حقائق کا حوالہ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی فوجی بغاوت آرمی چیف کی سربراہی کے بغیر ناکام رہی ہے۔موجودہ حالات میں بنائے جانے والے بیانیے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سیاسی بحران میں مارشل لا لگا کر فوج اقتدار پر قبضہ کرلے گی۔اور فوج کی اکثریت بھی موجودہ حکومت سے نالاں ہے۔موجودہ تناظر میں یہ مفروضہ قابل عمل نظر نہیں آرہا کہ اعلیٰ فوجی قیادت کے بغیر یہ اقدام قابل عمل ہوسکتا ہو۔مارشل لا لگنے کی صورت میں فوری انتخابات کا مطالبہ ماضی کی طرح ڈسٹ بن کی نذر ہوجائے گا۔سیاسی عقیدت مندی ،سیاسی شعور کے سامنے آہنی دیوار ہے۔ تاریخ دیکھی جائے تو سیاستدان جب ناکام ہونے لگتے ہیں تو وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں اور ہر سیاسی جماعت فوجی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے آنی چاہتی ہے اور یہ اپنی سیاسی عقیدت مندوں یا عوام کو صرف اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں