kohsar adart

اسم با مسمی ۔۔ ایک روح پرور واقعہ

جسمانی قدرت و قوت کے بعد اعضاء قوی کی کمزوری انسان میں فطری طور پر مایوسی پیدا کر دیتی ہے۔بڑھاپے میں اولاد سے محرومی کے بعد اس سوچ کا اجاگر ہونا لازمی ہے کہ موت کے بعد ہمارا نام لیوا کون ہوگا۔اور ہمیں کون یاد رکھے گا۔
یہ ایک ایسی ہی خاتون کا قصہ ہے جو سن یاس کو پہنچ چکی تھیں۔ان کی عمر نوے سال ہوگئی۔لیکن اللہ نے ان کی گود ہری نہیں کی۔شوہر کی عمر سو برس کے لگ بھگ تھی۔وہ نہایت دیندار اور بڑے مہمان نواز تھے۔عمر رسیدگی کے اس دور میں بھی رزق حلال میں مہمانوں کو شریک کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ دور دور سے مہمان آتے اور ان کے دسترخوان پر شریک طعام ہوتے۔کسی روز کوئی مہمان خود چل کر نہ آتا تو بے قرار ہو جاتے۔گھر سے باہر نکل کر کسی مسافر کو تلاش کرتے اور اپنے ساتھ لے آتے ۔
ایک دن رزاق کریم نے چند خوبرو اور خوش کلام مہمان ان کے پاس بھیجے۔انہوں نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ مہمان نواز بزرگ کی خدمت میں سلام پیش کیا۔سلام و دعا اور رسمی آؤ بھگت کے بعد بزرگ نے مہمانوں کے قیام و آرام کا انتظام کیا اور خود ان کے طعام کا اہتمام کرنے چلے گئے۔کچھ دیر بعد لوٹے تو ان کے ساتھ بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت تھا جو انہوں نے دسترخوان پر سجادیا اور اپنے معزز مہمانوں کے علاؤہ ضعیف بیوی کو بھی بلالیا۔
بزرگ پہلے حیران اور پھر خوفزدہ ہو گئے کہ ان کے اصرار کے باوجود مہمانوں کے ہاتھ دسترخوان پر خوشبو سے مہکتے گوشت کی جانب بڑھنے کا نام نہیں لیتے۔دستور زمانہ کے مطابق بزرگ میزبان کے دل میں معا خیال آیا کہ ان کے یہ خوش شکل مہمان کہیں قتل و غارت کی نیت سے تو نہیں آئے۔مہمان بڑے قیافہ شناس تھے۔انہوں نے اپنے مہربان و شفیق میزبان کے چہرے کی جھریوں میں خوف کے لہراتے سائے دیکھ کر کہا،ڈرو مت، ہم تم پر نہیں، تمہاری پڑوسی قوم پر عذاب الٰہی بن کر ٹوٹیں گے۔تمہارے لیے تو ہم ایک خوش خبری لائے ہیں۔
سو برس کے میاں اور نوے برس کی بیوی کبھی اپنے سراپا کو دیکھتے اور کبھی نورانی چہروں پر نظر ڈالتے جہاں مکرو فریب کا شائبہ بھی نہ تھا۔مہمانوں نے پھر کہا ہم اپنی جانب سے کچھ نہیں کہتے۔ یہ اللہ کا علم اور اسی کا حکم ہے۔اس کی قدرت کاملہ سے کسی کو مایوس و نا امید نہیں ہونا چاہیے۔بزرگ میزبان خود بھی نہایت خدا رسیدہ و جہاں دیدہ تھے۔فرمایا: اپنے رب کی رحمت سے کون مایوس ہو سکتا ہے،سوائے گمراہ نافرمان لوگوں کے۔ان کی ضعیف بیوی ہنسنے لگی اور سر پر ہاتھ مار کر بولی ایک تو میں بوڑھی دوسرے بانجھ اور تیسرے یہ کہ تمام عمر ماں بننے کی خواہش کی جو اس وقت پوری ہوگی، جب پیر قبر میں لٹکے ہوئے ہیں۔
علم کے دیگر شعبوں کی طرح آج طب نے بھی حیرت انگیز ترقی کر لی ہے۔اس لیے کوئی بات نا ممکن نہیں سمجھی جاتی۔لیکن چار ہزار قبل اس خدا شناس بزرگ نے محض اپنے رب پر ایمان کا اظہار یوں کیا تھا ،اس کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی نا امید ہوتے ہیں۔
پھر قادر مطلق نے اس بوڑھے جوڑے کو وہ صحت و توانائی بخشی کے مقررہ مدت کے بعد سارہ کے ہاں واقعی ایک یہ "غلام علیم "یعنی علم والا لڑکا پیدا ہوا جس کا نام حکم الہٰی کے مطابق اسحاق رکھا گیا۔تیرہ چودہ سال قبل بھی اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ عالی مقام کو اپنی دوسری بیوی ہاجرہ کے ذریعے ایک "غلام حلیم "یعنی بردبار لڑکے سے نوازا تھا جس کا نام اسماعیل تھا۔ان حلیم و علیم بیٹوں کے بلند مرتبت باپ کا نام حضرت ابراہیم علیہ السلام ہے۔جو ابو الانبیاء اور معمار حرم کے نام سے ابدالاعباد تک نوح انسانی کے لیے قابل تقلید نمونہ بنائے گئے ہیں۔
حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دینے والے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمان دراصل اللہ کے فرشتے تھے جنہیں دینوی رزق کی ضرورت نہیں تھی اس لیے انہوں نے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت کھانے سے اجتناب کیا۔وہ حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمان قوم کی جانب عذاب کے لیے بھیجے گئے تھے۔اس دوران خلیل اللہ تک ایک اور خبر پہنچانا بھی ان کے ذمے تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیدائش کے آٹھ روز بعد حضرت اسحاق علیہ السلام کا ختنہ کرایا۔دیگر بے شمار یادگاروں کی طرح ختنہ بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی یادگار ہے۔
عبرانی زبان میں اسحاق کا اصل لفظ” یسحق” ہے۔اس کا عربی ترجمہ” یضحک "ہے اور اس کے معنی ہیں۔”ہنستا ہے”۔بڑھاپے میں بیٹے کی پیدائش پر حضرت سارہ ہنس پڑی تھیں اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش ان کے لیے بقیہ عمر کی ہنسی خوشی کا سامان بن گئی اس لیے اللہ کے اس پیغمبر کا نام اسم بامسمی تھا۔حضرت اسحاق علیہ السلام کی شادی رفقہ نامی ایک خاتون سے ہوئی جنہوں نے دو جڑواں بیٹوں کو جنم دیا۔عیصو اور یعقوب علیہ السلام ۔روایات کے مطابق حضرت اسحاق علیہ السلام کا قیام اور رشد و ہدایت کا مقام بیت المقدس تھا جسے آپ نے تعمیر فرمایا اور یہیں دفن ہوئے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More