kohsar adart

احمد ریاض کا شعری مجموعہ "آنکھیں، یقیں، چراغ

تبصرہ : راشد عباسی

احمد ریاض۔۔۔ ایک بلند فکر شاعر

ایک زمانہ تھا کہ اردو غزل قصہ ہائے گل و عندلیب تک محدود تھی لیکن ہمارے عہد تک آتے آتے غزل کا ارتقائی سفر بہ ایں جا رسید کہ اب جدید تر عہد کے معروضی مسائل کو بھی جدت فکر رکھنے والے شعراء اپنے اشعار کا موضوع بناتے ہیں۔ اور عملی طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ زندہ رہنے والی شاعری کی تخلیق کے لیے جہاں شاعر کا روایت کے ساتھ جڑت رکھنا ضروری ہے وہیں عصری شعور کا حامل ہونا بھی ناگزیر ہے۔ بڑی شاعری اپنے موضوعات زندگی اور عصری احوال و مسائل سے ہی اخذ کرتی ہے۔ احمد ریاض بھی اپنے سماج کا ایک حساس اور صاحب تفکر فرد ہونے کے ناطے اپنی تخلیقات کے لیے خام مواد اپنے سماج سے ہی حاصل کرتا ہے۔ وہ بے جا رسمی اور پرتصنع انداز سخن اختیار کرنے کے بجائے روایت اور زبان و بیان کا خیال رکھتے ہوئے خیال کو شعر کے قالب میں ڈھالتا ہے۔۔۔

یہ بستی خوف سے خالی تھی بھائی
یہاں باہر سے ڈر لایا گیا ہے

تقسیم کر رہے ہو جسے اپنے نام سے
سب کو پتا ہے یار کرائے کا خوف ہے

جا بجا انسان کو بانٹا گیا ہے
جا بجا طبقات میں دیکھا گیا ہوں

اب جان بچاؤں کہ عقیدہ، مرے مولا
حالات کشیدہ ہیں، کشیدہ مرے مولا

ہمارے ہاں آج کل اکثر نوجوان شعراء کچھ اچھوتا کہنے کی خواہش میں دن رات ایک کرتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ وہ مشاعرے لوٹ سکیں۔ یقینا انھوں نے کبھی پاپولر ادب اور وقیع ادب کے تفاوت پر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ احمد ریاض کے ہاں شاید آپ کو شعری تجربے اور اسلوب کی ندرت بہت زیادہ نہ ملے لیکن ان کے ہر شعر میں مقصدیت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے

اٹھایا کرو کوئی تازہ قدم
نئے زاویے سے بھی سوچا کرو

زندہ حرف چنے ہیں میں نے
اور بیدار غزل کہتا ہوں

لوٹ آئیں گے بہاروں کے حسیں موسم بھی
خشک پتوں کو بتاتا ہوں، چلا جاتا ہوں

زمین پر خدا کے رسول اور پیغمبر محبت سکھاتے رہے۔ ولی، پیر، فقیر اور صوفیاء بھی محبت کے پیغام بر تھے۔ ساری کی ساری صوفیانہ شاعری محبت کی شاعری ہے۔ احمد ریاض کی شاعری میں بھی محبت کی شاعری کے کثیر الجہت نمونے ملتے ہیں

سب مسائل کا ہے ایک حل جانیا
رہگزار محبت پہ چل جانیا

اپنی مٹی سے احمد محبت نبھا
خاک تھوڑی سی چہرے پہ مل جانیا

ہمارے شہر کے فاضل فقط اک بات بتلائیں
کبھی انسان ڈھونڈا ہے، کسی انسان میں ہم نے

بہار اپنا نکھار لائے، قدم قدم پر دیے ہوں روشن
دکھائے ایسی ڈگر محبت، سجائے ایسا نگر محبت

احمد ریاض کا تعلق دیہات سے ہے۔ دیہی زندگی کی اپنی خوبصورت روایتیں اور قدریں تھیں جن کو شہر نگل چکا ہے یا نگلتا جا رہا ہے۔ احمد ریاض کی شاعری میں جہاں ہمارے تہذیبی زوال کے دکھ کا بیان ہے وہیں شاعر ہماری روایات و اقدار کی شکست و ریخت پر بھی کڑھتا دکھائی دیتا ہے اور نئی نسلوں کو جسم کے ساتھ ساتھ روح کو بھی زندہ رکھنے کا پیغام دیتا ہے۔

ارتقا ضروری ہے آدمی کے ہونے کو
ایڑیاں اٹھانے سے قد بڑے نہیں ہوتے

ایک بوڑھے نے روتے ہوئے یوں کہا
اب چلاتا نہیں کوئی ہل جانیا

اندھیری رات میں روشن ستارے دیکھنے ہوں گے
وگرنہ دیکھنے والو ! خسارے دیکھنے ہوں گے

احمد ریاض کی ہندکو شاعری میں زبان و بیان پر گرفت، موسیقیت، ردھم اور روانی اپنی مثال آپ ہے۔ اگر ان کی اردو غزل کا ان کی ہندکو شاعری سے موازنہ کیا جائے تو ایک واضح تفاوت دکھائی دیتا ہے۔ لیکن احمد ریاض کی طویل اردو نظموں کا معیار ان کی ہندکو شاعری کے معیار سے بلند نہ بھی ہو تو اس سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی طویل نظمیں کتابی صورت میں چھپنے پر نظم کے قارئین کے لیے ارمغان خاص سے کم نہیں ہوں گی۔ ہم شاعر سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ وہ اردو نظم کے قارئین

کو اپنی طویل نظموں سے زیادہ دیر تک محروم نہ رکھیں۔

راشد عباسی 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More