top header add
kohsar adart

اجمل سراج ! کیا تم واقعی مر گئے ہو؟

 

کل دن میں فیس بک نیوز فیڈ میں اجمل سراج کے انتقال کی خبر سامنے آئی تو میں نے دانستہ نظر انداز کی۔ سہ پہر میں کاشف رضا سے ملنے اکادمی ادبیات پہنچا تو اسے کمر درد میں مبتلا پایا۔ لاہور کے لیے بکنگ کروانے اسلام آباد ریل ویز اسٹیشن جاتے ہوئے کاشف نے کہا، اجمل سراج کی خبر آئی ہے۔ میں نے سنی ان سنی کی۔ اجمل سراج سے میرا کہاں ایسا تعلق رہا کہ اس کی موت کا اعلان مجھے پریشان کرتا!

کاشف میڈیکل چیک اپ کے لیے شفا اسپتال کی ایمرجنسی میں تھا تو اجمل سراج نے چاہا میں اسے سوچوں، لیکن میں نے بھی قسم کھائی، تمھیں نظر انداز کروں گا۔ گھنٹہ دو بعد جب کاشف کو لاہور جانے والی ٹرین میں سوار کر کے لوٹا تو اجمل سراج اپنے لانبے قد کے ساتھ پورے کا پورا سامنے آ کھڑا ہوا؛ میں نے قسم کھا رکھی تھی تو اسے ہاتھ سے ایک طرف دھکیلا اور گھر کی راہ لی۔ گھر پہنچا تو خیال تھا کہ چند ضروری رابطے کرنے ہیں، سو اگلے دو تین گھنٹے فون کالیں نپٹاتے گزرے۔ جب اک ذرا فرصت ملی تو اجمل سراج نے پوچھا، "کیوں نظر انداز کر رہے ہو، کم از کم ایک فیس بک پوسٹ ہی لگا دیتے؟!”

میں نے عاجزی سے کہا، "تمھارا میرا ناتا ہی کیا تھا اجمل؟ ایک دو ملاقاتیں اور وہ بھی بالواسطہ؟ کیا لکھوں؟”
"پھر بھی! کچھ تو لکھ سکتے تھے! جب بھی تم سے ملا پوری محبت سے ملا۔ کیا انا للہ و الیہ راجعون بھی نہ لکھو گے؟”
"تو کیا تم واقعی مر گئے ہو؟ میں یقین نہیں کرنا چاہتا کہ تم مر گئے ہو۔ ابھی تمھاری عمر ہی کیا تھی! میرے ساتھ کے ہو؛ مگر تم دیکھنے میں اتنے بوڑھے لگتے ہو، تو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا کہ تم مجھ سے چند مہینے ہی بڑے ہو گے، یا زیادہ سے زیادہ ایک سال۔”
اجمل بے بسی سے مجھے دیکھنے لگا تو میں نے کہا، "اچھا ٹھیرو، اک تصویر ہے تمھارے ساتھ، وہ ڈھونڈتا ہوں۔”
فیس بک پر سرچ کیا تو شہزاد نیر کی البم میں وہ تصویر مل گئی جس میں میرے ایک جانب میرا بیٹا کھڑا ہے، ایک طرف اجمل سراج اور اجمل کے پہلو میں شہزاد۔ مارچ 2017ء کی تصویر ہے، جب شہزاد کوئٹہ سے مشاعرے میں شرکت کے لیے کراچی میرے یہاں آیا تھا۔ وہ تصویر جس میں ہم چاروں ایک رو میں کھڑے ہیں، جم خانہ کراچی کے باہر کھینچی گئی تھی۔ جم خانہ کی وہ رات کچھ یوں بھی نہیں بھولتی کہ تقریب کے اختتام پر صدر محفل پیر زادہ قاسم نے ترنم سے اپنی وہ غزل سنائی جس کی گونج اکثر مجھے سنائی دیتی ہے؛ یہ غزل مجھ سے چپک سی گئی ہے؛ اس کا مطلع ہے:

"رسوائی کا میلہ تھا سو میں نے نہیں دیکھا
اپنا ہی تماشا تھا سو میں نے نہیں دیکھا”

فیس بک پر یہ تصویر لگا دی کہ چلو میرا فرض پورا ہوا! چار لوگ جان جائیں گے کہ مرنے والے سے میرا قریبی ناتا تھا۔
اجمل پھر بھی پیچھا چھوڑنے کو تیار نہ تھا؛ بول نہیں رہا تھا، خاموش تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب جاتا کیوں نہیں۔ خیال آیا کہ اور ملاقات بھی ہے؛ شاید دو؛ شاید دو کہنا بھی ٹھیک نہیں، ڈیڑھ ملاقات ہو گی۔
پہلی آدھی ملاقات "سب رنگ ڈائجسٹ” کے دفتر میں تھی۔ چہرے پر وہی مسکان لیے جو میرے لیے اس کی پہچان ہے؛ بڑی عقیدت سے شکیل عادل کو دیکھتے ان سے بات کرنا وہ چہرہ نظر میں ہے۔ یہ ہوئی آدھی ملاقات اور پہلی بھی۔ غالباً کل یا پرسوں کی بات ہے؛ کل پرسوں گزرے مشکل سے بیس اکیس برس ہی تو ہوئے ہیں۔


دوسری ملاقات بھی بیس اک برس پرانی ہو چکی مگر ایسی ہی تازہ ہے، یعنی کل پرسوں ہی کی بات ہے۔ شکیل عادل زادہ کو ہر حال میں دپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرنا ہوتا تھا مگر ایک دپہر جب میں ان کا مہمان تھا، قیلولہ کرنے کے بہ جائے مجھ سے کہا، میرے ساتھ چلو، ایف ایم میں اجمل سراج کو انٹرویو دینے جانا ہے۔
حسن اسکوائر پر کسی بلڈنگ میں یہ ریڈیو اسٹیشن قائم تھا (شاید آج بھی ہو)۔ اجمل سوال کرتا اور بھائی شکیل جواب دیتے جاتے اور میں گپ چپ اسٹوڈیو ہی میں سانس روکے بیٹھا تھا کہ سامعین کو کسی تیسرے کی موجودی کا پتا نہ ملے۔ ایسے میں "بازی گر” کا ذکر نہ ہوتا یہ کیسے ممکن تھا۔ اس روز پہلی بار میں نے شکیل بھائی کے منہ سے سنا کہ "بازی گر” کی اولین ایک یا دو اقساط انھوں نے نہیں لکھی تھیں، اور بوجوہ وہ لکھنے والے کا نام نہیں بتانا چاہتے۔ انٹرویو ختم ہو گیا، ہم چلے آئے مگر میرے ذہن میں کھد بد رہی کہ "بازی گر” کی پہلی قسط کس نے لکھی تھی۔ پوچھنے کی ہمت مجھ میں کہاں تھی کہ بھائی شکیل سے پوچھتا، چلیں آف دی رکارڈ ہی بتا دیں، "بازی گر” کی پہلی قسط کس نے لکھی۔
کچھ ہفتے کچھ دن یا کچھ مہینے گزرے ہوں گے، "سب رنگ ڈائجسٹ” کے دفتر میں بیٹھے بھائی حسن ہاشمی سے سوال کیا، "بازی گر” کی پہلی قسط کس نے لکھی تھی؟ شہر گیا کے حسن ہاشمی نے پوری تفصیل بتائی کہ وہ بچپن میں بدھ بھکشوؤں کو کیسے دیکھتے آئے اور پھر انگلینڈ میں کام کرتے ان کی ایک کولیگ "کورا” تھی، جس کا نام کہانی کے مرکزی کردار کے طور پر منتخب کیا۔ وغیرہ۔ بات تقریباً ختم ہو چکی تھی کہ شکیل عادل زادہ کمرے میں آ گئے۔
"ہاں تو اجمل، یہ وہ واقعہ ہے جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، اور کیا اس وجہ سے تم بھی؟”

کچھ لوگوں سے سرسری ملاقاتیں رہی ہوتی ہیں مگر ان سے دل کا بڑا گوڑا تعلق ہوتا ہے؛ اسی لیے دن بھر میرا دل گوڑا بے چین رہا۔ خدا مغفرت کرے، بڑا خوش اخلاق شخص تھا۔

 ظفر عمران

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More