آٹھ مارچ ….. یوم خواتین
عطیہ نور عباسی
وہ دفتر سے نکلی تو شام کے گہرے سائے منڈلا رہے تھے کام نمٹاتے نمٹاتے پھر دیر ہو گئی تھی ۔وین کا انتظار کرتے ہوئے اس کے زہن میں خیالات کا انبار تھا اور گھر پہنچ کر کرنے والے کاموں کی ایک لسٹ ۔
اسکا سٹاپ آیا تو چلنے کے بجائے وہ گھر کی طرف بھاگی ۔بل بجا کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرتے ہوئے گھر کے اندر کے حالات اسکی آنکھوں میں گھومنے لگے۔
اسکے سسر نے دروازہ کھولا تو اس نے سکون کا سانس لیا چلچلاتی دھوپ میں میں سفر کرتے ہوئے اور گھر تک آتے آتے وہ ہلکان ہو جاتی تھی ۔۔۔۔
بیٹے کو گلے لگا کر وہ کچن کی طرف بھاگی کیونکہ اسکا بیٹا اور سسر دونوں کھانے کے لیے اسکے منتظر تھے۔۔
کچن میں گندے برتنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے جلدی سے روٹیاں ڈالنی شروع کی سالن گرم کیا اور جلدی سے کھانا ٹیبل پر لگا دیا ۔۔۔
اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا مگر گھر کے کاموں کو نمٹانےکے چکر میں اس نے اپنی بھوک کو دبا دیا اور جلدی جلدی کچن سمیٹ کر برتن دھوئے اور گھر کی صفائی میں لگ گئی ۔۔
گھڑی دیکھی تو اس کے ہوش اڑ گئے اسکا شوہر آنے والا تھا اور اس نے کھانا نہیں بنایا تھا ۔
جلدی سے سالن چڑھا کر کباب تلنے لگی ساتھ ساتھ بیٹے کو ہوم ورک بھی کرواتی گئی ۔
اسی دوران سسر کو چائے بھی بنا کر دی۔۔۔
بل بجی تو اس نے دروازہ کھولتے ہوئے دل ہی دل شکر ادا کیا کہ وہ وقت پر کھانا بنا چکی تھی ورنہ اسکے سرتاج کا موڈ خراب ہو جاتا اور اسے بہت کچھ سننا پڑتا۔۔۔۔
شوہر صاحب نے صوفے پر دھنستے ہوئے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی دیکھتے ہوئے حکم صادر کیا کہ جلدی کھانا لگاؤ بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔
اس نے کھانا لگا دیا شوہر نے ناقدانہ نظروں سے اسکا جائزہ لیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ کیا تم نے ماسیوں والا حلیہ بنایا ہوا ہے لوگوں کی بیویوں کو دیکھو کہ کیسے ہر وقت تیار رہتی ہیں تمھیں تو کوئی ہوش ہی نہیں
وہ جواب دینا چاہتی تھی کہ گھر اور دفتر کے درمیان چکی کی طرح پستے ہوئے اسکے پاس اپنی زات کے لیے وقت ہی کہاں ہے اسے تو ڈھنگ سے کھانا کھانا بھی کم ہی نصیب ہی ہوتا ہے ۔عورت اگر معاشی بوجھ اٹھانے میں مرد کا ساتھ دے رہی تو بدلے میں گھر کے کاموں میں اسے بھی مدد درکار ہے مگر اس نے کہا کچھ نہیں الفاظ کا گلا گھونٹتے ہوئے وہ لقمے نیچے اتارتی رہی۔۔۔۔۔
برتن اٹھائے دھوئے بیٹے کو سلایا اسکے سکول کی تیاری کی شوہر کے صبح کے لیے کپڑے نکالے سسر کو چائے بنا کر دی دوا کھلائی اس دوران اسکے شوہر لگاتار فون پر اور ٹی وی پر مصروف رہے
کام ختم کرتے کرتے گیارہ بج گئے تھے اسکے شوہر کب کے سو چکے تھے مگر وہ جاگ رہی تھی ۔
بستر پر دراز ہو کر اسکی آنکھیں بند ہوتے ہوئے بھی اسکے زہن میں دفتر اور گھر کے کام گھوم رہے تھے ۔
اسکا ہر دن ایسا ہی تھا اسکا شوہر ویک اینڈ پر دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتا یا دوست مل کر مووی دیکھنے چلے جاتے مگر وہ چاہ کر بھی نہ جا سکتی کیونکہ اسکی چھٹی کپڑے دھونے استری کرنے میں گزر جاتے پوری گھر کی تفصیلی صفائی کرنی ہوتی۔۔۔
وہ اس دائرے میں گھوم رہی تھی مگر بدلے میں اسے تعریف تسلی اور حوصلے کے دو جملے بھی نہیں مل رہے تھے ڈیمانڈز بڑھتی جا رہی تھی اور اسکی زات کہیں پیچھے بہت پیچھے دھتکار تزلیل تنقید کے دائروں میں قید ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
عطیہ نور عباسی