آج معروف شاعر و دانشور شہزاد اظہر کا جنم دن ہے
تحریر : راشد عباسی
آج معروف شاعر اور دانش ور شہزاد اظہر کا جنم دن ہے۔ شہزاد اظہر غزل اور نظم دونوں کا صاحب اسلوب شاعر ہے۔ وہ فیشن کے طور پر شاعری نہیں کرتا بلکہ وہ خون جگر سے مصرعے کشید کرتا ہے۔ اس کی غزل ہو یا نظم کہیں بھی کوئی بھرتی کا لفظ یا مصرعہ نظر نہیں آتا۔ اس کے مصرعے اعلان کرتے ہیں کہ کس دماغ سوزی اور ریاضت سے انھیں ہیروں کی طرح تراشا گیا ہے۔
افسوس ادب کی جواں نسل تفکر و تدبر اور جگر سوزی کے بجائے شارٹ کٹ اور مارکیٹنگ کے ذریعے بڑے تخلیق کار بننے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہے۔
شہزاد اظہر کی ایک غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر
یہ گلابی سی سجل ایڑیاں دھر کاغذ پر
اے مرے حرفِ ہنر روشنی کر کاغذ پر
اے خیال ِ تروتازہ مری سانسوں میں دھڑک
اے پری زاد کسی لمحے اُتر کاغذ پر
میر صاحب کی زمیں اور بھی زندہ ہو جائے
یہ دھڑکتا ہُوا دل آئے اگر کاغذ پر
دل و قرطاس تری رہ میں پڑے ہیں دونوں
اک قدم دل پہ مگر دوسرا دھر کاغذ پر
میں یہاں دل سے گرہ گیر ہوں دیکھا تم نے
میں نے اک عمر میاں کی ہے بسر کاغذ پر
یہ تری اپنی ہی اقلیم ہے جس رنگ میں کھِل
لفظ ہے تُو، تجھے کس بات کا ڈر کاغذ پر
یہ مرے اشکِ ریاضت کا ثمر ہے شہزاد
چمک اُٹھتا ہوں اگر آئنہ بھر کاغذ پر