آج عالمی یومِ خالو ہے
خالد فرشوری
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عورت شادی سے پہلے خالہ اور پھوپھی بن سکتی ہے مگر چچی اور معمانی جیسے مراتب پر فائز ہونے کے لئے شادی کرنا لازمی ہے، اسی طرح مرد بھی بغیر شادی کے صرف کسی کا ماموں یا چچا تو بن جاے گا مگر شادی کا لڈو کھاے بغیر دنیا کی کوئی طاقت اسے پھوپھا یا خالو نہیں بنوا سکتی۔
ویسے بھائی آپس کی بات ہے خالو بننا کوئی قابل فخر بات نہیں ہے، خاندان کا سب سے غیر ضروری، آدمی خالو ہی ہوتا ہے،کسی کام کا نہیں ہوتا سارے کام تو آپ کا چچا اور ماموں کر رہے ہوتے ہیں بطور خالو انسان کی ساری زندگی سسرال میں پروٹوکول مانگتے مانگتے ہی گزر جاتی ہے، میں نے آج تک کسی انسان کو خالو کے طور پر empowered نہیں دیکھا، خالو بننے کے بعد انسان ایک عجیب احساس کمتری، بے مصرفی، اور عدم توجہی کا شکار ہو جاتا ہے، خالواورپھپھا بنیادی طور پر عورت اورینٹڈ رشتے ہیں، یہ بیچارے صرف آپ کی خالہ یا پھوپھی کو آپ کے گھر ڈراپ کرنے کی حد تک تو قابل برداشت ہوتے ہیں اس کے بعد اگر بیٹھ جائیں تو بُرے لگنے لگتے ہیں،انہیں صرف چاے یا کھانا ہی نہیں چاہئیے ہوتا، یہ چاہتے ہیں کہ پورا گھر انہیں ویسے ہی پیار سے اٹینڈ کرے جیسے ان کی بیوی کو کر رہا ہوتا ہے، پیار کا بھوکا ہوتا ہے خالو ، مگر وہ سمجھتا ہے اسے حقیقی پیار کبھی نہیں ملا ، آپ نوٹ کیجئیے گا، شادی بیاہ کی تقریبات میں خالووں کی الگ گیدرنگ ہوتی ہے، یہ ایک الگ ٹیبل پر بیٹھے تقریب کے انتظامات سمیت ہر چیز میں کیڑے نکال رہے ہوتے ہیں،انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ہم آوٹ سائیڈر ہیں، یہی احساس محرومی خالووں کو سازشی اورکسی حد تک خاندان دشمن بنا دیتا ہے،خالو کبھی اپنے تحفظات کا اظہار ڈائریکٹ نہیں کرے گا، یہ ہمیشہ خالہ کے کان بھر کے اپنا بیانیہ امپوز کرواے گا، یہ چھوٹے موٹے حرامی پن، خالو میں پیدائشی طور پر نہیں ہوتے، زمانہ اسے اگنورکرکر کے ایسا بنا دیتا ہے، قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ خالو بننے کے بعد اس سے وہ امپاورمنٹ بھی چھن جاتی ہے جو اس سے پہلے بطور چچا یاماموں وہ کسی اور گھر میں انجوائے کر رہا ہوتا تھا، میرے خیال میں تو دنیا کے تمام خالوؤں کو کسی فقیر کی بد دعا ہے، خالو سونے کو ہاتھ لگاے تو مٹی بن جاتا ہے،خالو سے اسی لئے کوئی کام نہیں لیا جاتا،زیادہ سے زیادہ ،رشتہ فائنل ہوجانے کے بعد خالو کا دل رکھنے کے لئے اسے لڑکے کی انکوائری کا کام دے دیا جاتا ہے،مگر میرے حساب سے دنیا میں ہونے والی ننانوے فیصد طلاقیں خالو وں کی مرتب کردہ نان پروفیشنل اور ڈھیلی انکوائری رپورٹس کے باعث ہوئی ہیں،خالو کے اندر اس سے زیادہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ فراہم کردہ معلومات کے مطابق لڑکے کے دفتر جاے اور خود کو ہوشیار ثابت کرتے ہوے رازداری سے لڑکے کی تنخواہ معلوم کر آے،آپ نے مختلف فلموں یا ڈراموں میں،چچا ماموں، سسر، اور بھائی کے مضبوط کردار دیکھے ہونگے مگر خالو کا کوئی زکر نہیں سنا ہوگا۔آپ خود یاد کریں اپنے ماموں اور چچا کو آپ اپنے دوستوں سے فخر یہ ملواتےہوے ان کا تعارف کرواتے ہیں کہ یہ میرے چچا ہیں یہ میرے ماموں ہیں ،مگر خالو اور پُھپھا وہ بدنصیب رشتے ہیں جنہیں کسی سے ملواتے ہوے آپ کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے،آپ خالو کو خالواور پھپھا کو پھپھا کہہ کر نہیں بلکہ “انکل“کے نام سے متعارف کروا کر جان چُھڑا رہے ہوتے ہیں ۔خالہ اور پھوپھی کی موت کے بعد تو خالواور پھپھا کی اورمٹی پلید ہوتی ہے، انہیں خاندان میں کوئی دو ٹکے کو نہیں پوچھتا،بھلے انہوں نے خالہ اور پھوپھی کو زندگی میں کتنا بھی خوش کیوں نا رکھا ہو ، مگر،سرگوشیوں میں ہر زبان پر یہی الزام ہوتا ہے کہ “اس نیچ آدمی نے مرحومہ کی جان لے لی”۔
میری ان باتوں سے متاثر ہو کر ہمارے ایک دوست نے شادی کے بعد میرے یہ مشاہدات اپنی بیگم سے شیئر کئے،اس نے بھی اتفاق کیا،مگر جب میرے دوست نے یہ کہا کہ اللہ مجھے کبھی خالو نا بناے تو وہ بُرا مان گئی اور کہا کہ یہ تو میری بہنوں کو بد دعا دے رہے ہیں آپ آج عالمی یومِ خالو ہے،اپنے ارد گردموجود خالوؤں کو تلاش کریں۔
(خالد فرشوری کی کتاب “ میں نے خالو ڈوبتے دیکھا “ سے اقتباس)