top header add
kohsar adart

ہم نے پاکستان بنتے دیکھا

ہمارے خاندان نے ہندوؤں کے بھیس میں ہجرت کی ۔۔انیسہ خاتون

تحریر ۔۔ اختیار احمد خان

قیام پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے 80 سالہ انیسہ خاتون ماضی میں جیسے کھو سی گئیں۔۔۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان بنتے وقت میری عمر چودہ برس تھی۔۔کم سنی میں ہی شادی ہو جانے کی وجہ سے میں کلکتہ اپنے سسرال میں تھی۔اپنا گھر تھا۔۔۔شاندار چار منزلہ عمارت تھی۔نوکر چاکر بھی تھے۔۔دن بہت اچھے گزر رہے تھے کہ اچانک پاکستان کے مطالبے پر سکھ اور ہندو ہمارے جانی دشمن بن گئے۔ہمارے علاقے میں بھی حالات انتہائی کشیدہ رہنے لگے۔روزہی مارکٹائی کے واقعات ہم سنتے اور دہلتے رہتے۔۔آخر کار جب حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو ہمیں بھی اپنا گھر بار اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔صرف ایک دو جوڑے کپڑے،چند برتن اور پیسوں کے علاوہ ہم گھر سے کچھ نہ لے سکے۔۔افراتفری میں مردوں نے گھر کی تمام عورتوں سمیت فی الحال کلکتہ میں ہی ذکریا اسٹریٹ میں پناہ لی۔وہاں بھی ہر وقت بلوائیوں کا خوف رہتا۔ذ کریا اسٹریٹ کے پاس ہی بہادر چوک پہ ہر روز ہنگامہ ہوتا۔۔روزانہ ہی لوگوں کو مرتے اور کٹتے دیکھتے۔۔مرد ہم عورتوں کو کبھی کہیں چھپاتے کبھی کہیں۔۔ان کی بچ جانے والی قیمتی متاع ہم عورتوں کی عزت و آبرو ہی تھی۔۔اور یہ کوئی افسانوی بات نہیں ہے۔۔ان خوفناک دنوں کی یاد اب بھی اگر آجائے تو جسم کانپنے لگتا ہے۔۔۔اور شدید دہشت کا احساس گھیر لیتا ہے۔۔


انیسہ خاتون کے جھریوں بھرے چہرے پر کرب و خوف کی چھاپ تھی۔۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد خود کو سنبھالتے ہوئے وہ پھر گویا ہوئیں۔
اسی طرح یہ فسادات ایک دن اتنے بڑھے کہ بلوائی زکریا اسٹریٹ کے اندر گھس آئے۔۔عورتیں چھپ گئیں۔۔جس کو جدھر جگہ ملی۔۔۔
مگر بدقسمتی سے کچھ خواتین بلوائیوں کے ہاتھ لگ گئیں۔ان میں میری سولہ سالہ بہن عائشہ بھی تھی۔اس کا تڑپنا،مچلنا فریاد کرنا۔۔۔بس تصور ہی دھلا دیتا ہے ۔میرے منہ میں عورتوں نے کپڑا ٹھونس دیا اور مجھے سختی سے پکڑے رکھا تاکہ کہیں جزبات میں بہن کو بچانے کے لیے میں باہر نہ نکل جاؤں ۔۔۔سکھ اور ہندو میری بہن کو اٹھا کر لے گئے اور پھر کبھی اس کا پتہ نہیں چلا۔۔
انیسہ خاتون ساری کے پلو سے آنکھیں خشک کرتے ہوئے گویا ہوئیں۔۔ہمارے بہت سے مرد مرچکے تھے۔۔اب وہاں رہنا ہمارے لیے خطرے سے خالی نہ تھا۔۔وہاں سے بھاگ کر ہم نے کسی طرح نیو مارکیٹ کلکتہ میں آکر پناہ لی۔۔۔پاکستان آذاد ہوجانے کے اعلان کے بعد حالات اتنے بگڑ چکے تھے کہ ہمارا اس وقت پاکستان ہجرت کرنا بہت مشکل تھا۔ہم کلکتہ میں ہی چھپتے پھر رہے تھے۔وہیں ہم نے چھپ کر یہ خوفناک منظر دیکھا کہ سکھوں نے کچھ مسلمانوں کو گھیر رکھا ہے۔۔اسی اثناء میں کم بخت درندوں نے دو معصوم بچوں کو اوپر اچھالا اور پیٹ میں بھالا گھسادیا۔۔۔آہ زندہ بچے۔۔۔۔ہم نے دیکھا ان تڑپتے بچوں کو،ان معصوموں کا مذاق اڑاتے ان درندوں کو۔۔۔اور ہمیں لگا کہ ہمارا دل پھٹ گیا ۔۔لیکن ہم زندہ رہے۔۔وہ بچوں کو اچھالتے۔مسلمانوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتے اور کہتے یہ دیکھو یہ ہے تمہارا پاکستان۔۔۔یہ دیکھو سسک رہا مر رہا ہے تمہارا پاکستان۔۔

کئی معصوم بچوں کو آگ میں پھینکتے بھی دیکھا۔۔کس کس ظلم کا ذکر کیا جائے۔۔انتہاپسند ہندوؤں اور سکھوں نے بہت ظلم کیے۔۔حالانکہ سب ایسے نہ تھے ۔۔ بہت سارے لوگ ان وحشیوں کو اس ظلم سے روکنا بھی چاہتے تھے مگر انہیں اپنی جانوں کا خوف تھا۔۔ خیر
کچھ دن نیو مارکیٹ میں رہنے کے بعد ہم اپنے گھر آگئے۔ہمارے علاقے میں چائنا قوم کی اکثریت تھی۔علاقے کا نام غالباً مٹکاک اسٹریٹ تھا۔میری ساس بہت بہادر خاتون تھیں۔۔انہوں نے ہم سب عورتوں کو اوپر دوسری،تیسری منزل میں شفٹ کردیا۔اور ہدایت کی کہ ہر وقت چولہے پر پانی گرم کھولتا رہے۔تاکہ اچانک حملے کی صورت میں بلوائیوں کے اوپر ان کے حملے سے پہلے ہی گرم پانی انڈیل دیا جائے۔۔
ایک دفعہ ہمارا ایک بنگالی ملازم جس کا نام لعل تھا،بازار گیا۔۔وہیں بلوائیوں نے اس کے دو ٹکرے کردیے۔۔دونوں طرف کی پسلی تک علیحدہ کردی ۔حالانکہ وہ خود کو ہندو کہتا رہا لیکن انہیں زرا برابر فرق نہیں پڑا۔پھر میری ساس بھیس بدل کر ہندو بن کر کسی طرح اس کی لاش لے کر آئیں۔یہ غالباً 1948 کا واقعہ ہے۔


1950 کے اوائل تک بھی حالات بہتر نہیں ہوئے تو میرے سسر کا ایک دوست جوکہ سکھ تھا۔۔اس نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ پاکستان ہجرت کرجائیں۔۔۔یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔پھر انیس سو پچاس میں ہی اس سکھ نے ہمارا حلیہ ہندؤوں جیسا بناکر ہمیں وہاں سے نکالا۔اور پھر ہم سیالڈا اسٹیشن پہنچے۔اسی سکھ نے ہمیں ریل گاڑی میں سوار کرایا۔۔ریل رکنے کی صورت میں باہر نکلنے سے سختی سے منع کیا۔۔اور ہم سر پر لٹکتی تلوار کا خوف لیے اللہ سے مدد مانگتے وہاں سے روانہ ہوئے۔ایک دن کے سفر کے بعد گوالنڈوں میں دریا کے قریب اتار دیا گیا۔۔۔شکر ہے ہم وہاں تک بھی بخیر وعافیت پہنچ گئے تھے۔پاکستان بن جانے کے بعد بھی ان وحشی حیوانوں کا غصہ اور درندگی ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔۔۔ہم سے پہلے جو ٹرین وہاں پہنچی اس میں ایک بندہ بھی زندہ نہ بچ پایا تھا۔خون ریل سے پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔خوف و دہشت سے عورتیں رونے لگیں۔۔ان کی چیخیں نکل جاتیں۔۔بڑے بزرگ ان کے مونہوں پر سختی سے ہاتھ رکھ دیتے۔۔۔
خیر وہاں سے ہم پانی جہاز میں بیٹھے۔۔ایک دن سے زائد وقت لگا اور پھر ہم ڈھاکہ پہنچ گئے۔۔۔اس وقت ڈھاکہ بھی پاکستان تھا اور ہمیں علم نہیں تھا کہ کچھ عرصے بعد ہمیں دوسری خون میں بسی ہجرت کرنی ہوگی۔۔
اس وقت پاکستان پہنچنے کی خوشی دنیا کی سب سے بڑی اور اہم خوشی تھی ہمارے لیے۔ہم زاروقطار رو رہے تھے۔۔کوئی اپنی مٹی کو چوم رہا تھا۔۔۔کوئی اس مٹی پر رب کے حضور سجدہ شکر ادا کر رہا تھا۔۔اس تمام عرصے میں کون سی بربریت اور ظلم تھا جو مسلمانوں پر نہ ڈھایا گیا ہو۔۔۔اور ان تمام دکھوں کا دریا پار کرکے اپنے وطن پہنچ جانے کا احساس ایسا خوش کن تھا جس کی سرشاری اب بھی دل میں محسوس ویسی ہی ہوتی ہے۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More