kohsar adart

کالی گھٹا ۔۔قوم عاد پر عذاب کی عبرتناک کہانی

کالی گھٹا
سخت قحط سالی کے بعد گھٹائیں امنڈ امنڈ کر آنے لگیں۔اور خنک ہواؤں کا سلسلہ شروع ہوا تو ساری قوم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔لوگ جھومتے گاتے گھروں سے نکلنے لگے کہ خوب جشن منائیں۔بڑی مدت سے انہیں بسنت کا انتظار تھا۔آمد بہار کے تصور میں انہوں نے کئی راتیں کاٹی تھیں۔ان راتوں میں جاگنا ان کی مجبوری بھی تھی۔سخت گرمی اور حبس میں بھی چین کی نیند کون سو سکتا ہے۔اس دور میں برقی پنکھے اور ایئر کنڈیشن بھی نہ تھے کہ کم از کم، امراء ہی ان سہولتوں سے مستفیض ہو سکتے۔موسم کی شدت نے امیر و غریب سب کو یکساں بے حال کر رکھا تھا۔طویل عرصے بعد انہوں نے گھٹاؤں کو گھر گھر کرتے آتے دیکھا اور باد نسیم کے جھونکے محسوس کیے تو ان کے پژ مردہ دل شاد و آباد ہونے لگے۔اس تصور نے انہیں بے اختیار رقص و مستی کہ عالم میں مبتلا کر دیا کہ اب بارش ہوگی،ان کی سوکھی کھیتیاں لہلہانے لگیں گی۔درخت پھلوں سے لد جائیں گے۔انسان تو انسان مویشیوں کو بھی پیٹ بھر خوراک میسر آئے گی۔ندی نالے اور چشمہ و تالاب تازہ پانی سے لبریز ہو جائیں گے۔
پھر تو وہ اپنی بستی کے اس مرد بزرگ کا پہلے سے زیادہ مذاق اڑا کر اور اس کے سامنے ناچ ناچ کر جشن بہاراں منائیں گے جو انہیں ہر وقت روکتا ٹوکتا اور عذاب الٰہی سے ڈراتا رہتا ہے۔پوری بستی میں یہ شخص اپنی فکر و خیالات اور عقائد و نظریات کے لحاظ سے منفرد تھا۔گنے چنے لوگ ہی اس کے ہم خیال ،حامی اور مددگار تھے۔باقی سب اسے کم عقل،آسیب زدہ اور جھوٹا سمجھتے رہے۔موسم ابر آلود نظر آنے لگا اور باد صبا کے جھونکے محسوس ہوئے تب بھی اس مرد دانا نے انہیں سمجھایا کہ ٹھنڈی ہواؤں اور ان پہاڑوں پر نہ اتراؤ۔اللہ کے فیصلے کا وقت قریب آگیا ہے۔اب بھی اپنے گناہوں سے توبہ کرلو اور اعمال بد سے باز آ جاؤ ورنہ ہلاکت یقینی ہے۔تندرست و توانا بڑے بڑے ڈیل ڈول اور قدآور جسموں کی مالک وہ قوم جس نے اپنی کمال ہنر سے بڑی بڑی چٹانیں کاٹ کر اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بنائی تھیں اور جو اپنے سرسبز باغات میں پھلوں کی کثرت اور مویشیوں کے ریوڑ دیکھ کر پھولی نہیں سماتی تھیں۔آج تو اس کے جوانوں پر قہر و نخوت اور سرکشی پہلے سے بھی زیادہ تھی۔وہ مرد خدا کی نصیحتوں کے جواب میں کہنے لگے کہ” اب ہم سے تیری روز روز کی باتیں نہیں سنی جاتیں ,اگر تو اور تیرا خدا چاہے تو وہ عذاب جلد لے آ تاکہ جھگڑا ہی ختم ہو جائے۔”
اپنی قوم کو ہلاکت سے بچانے کی فکر میں سرگرداں یہ ہادی و رہنما گھنگور گھٹاؤں اور پراسرار ہواؤں کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں کو اندر لے گیا ۔تو اس کے بعد آسمان پر نظر آنے والے کالے بادل اور نسیم سحر کی طرح محسوس ہونے والے ہوا کے نرم و خنک جھونکے باد صرصر میں تبدیل ہونے لگے۔تندو تیز ہوا کے جھکڑ چلنے لگے۔آندھی ،طوفان اور ہواؤں کے شور میں کسی کو کچھ سنائی دیتا تھا،نا نظر آتا تھا ہوا کا ہر جھٹکا پچھلے جھٹکے سے شدید تر ہوتا گیا۔ آٹھ دن اور سات راتوں پر محیط یہ طوفان باد و باراں اس قوی ہیکل اور غرور میں مبتلا قوم کو نیست و نابود کر گیا۔سرسبز و شاداب کھیت اور اشجار و باغات اجاڑ اور ویران ہو گئے۔پہاڑوں کو تراش کر بنائے جانے والی فلک بوس عمارتیں بھربھری ریت کے تودوں میں تبدیل ہو گئیں جن پر جا بجا بھاری اور طویل القامت اجسام کھجور کے خشک تنکوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔
کئی ہزار سال بعد 1843 میں ایک سیاح صحرائے عرب کے اس حصے سے گزرا۔اس نے حضر موت کے شمالی سطح مرتفع پر کھڑے ہو کر دیکھا تو اسے یہ صحرا ایک ہزار فٹ نشیب میں نظر آیا۔یہاں عرب کے صحرا نشین بھی جانے سے گھبراتے تھے۔سیاح نے جلدی سے اس نرم و باریک ریت میں ہتھیار پھینکا۔اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ پلک جھپکتے میں ہتھیار ریت کے سمندر میں غرق ہو گیا اور اس کا سرا بھی گل گیا جس سے وہ ہتھیار بندھا ہوا تھا۔
لوگو! جانتے ہو یہ نادان اور سرکش لوگ کون تھے؟یہ قوم عاد تھی جس پر ایسا عذاب الٰہی ایا کہ آج تک نشان عبرت ہے۔اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی انبیاء اور رسل کو جھٹلانے اور ان کا مذاق اڑانے والوں پر مختلف قسم کے عذاب آتے رہے۔کوئی قوم زمین میں دھنس گئی،کسی پر آسمان سے آگ برسنے لگی، کوئی زلزلے سے تباہ و برباد ہوئی، کسی کو پانی کے طوفان میں غرق کیا گیا ،کوئی باد صرصر سے ہلاک ہوئی تو کسی کو آسمانی بجلی کی کڑک نے نست و نابود کر دیا ،لیکن قوم عاد پر نازل ہونے والا عذاب نہایت ہولناک تھا۔
آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے کا نام سام تھا۔انہوں نے جس خطے میں قیام فرمایا وہ آج بھی ان کے نام پر” شام "کہلاتا ہے۔سام کی اولاد میں ساتویں پشت پر حضرت ہود علیہ السلام تشریف لائے،وہ قوم عاد کی اصلاح پر تبلیغ کے لیے مبعوث کیے گئے تھے ۔قران حکیم میں ان کا اسم گرامی سات مقامات پر ملتا ہے۔سورہ ہود میں پانچ دفعہ،سورہ اعراف اور سورہ شعرا میں ایک ایک مرتبہ۔جب کہ قوم عاد کا تذکرہ کتاب اللہ کی ان دس سورتوں میں ملتا ہے۔

اپنی جسمانی قوت پر غرور اور اقتدار پر گھمنڈ قوم عاد کا شیوہ تھا۔ اور اسی بنا پر اس نے نبی برحق حضرت ہود علیہ السلام کی تضحیک و استہزا سے گریز نہ کیا۔پھر اس پر بھی اللہ کا وہ عذاب نازل ہوا جس کا اجمالی تذکرہ سطور بالا میں کیا گیا ہے۔ قرآن کی مذکورہ سورتوں اور اس کی تفسیر سے تفصیلی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More