top header add
kohsar adart

کالم شالم ”پچھاں مُڑ وے ڈھولا“

کالم شالم ”پچھاں مُڑ وے ڈھولا“

جیسے جیسے ہماری وطن واپسی نزدیک آ رہی ہے مصروفیت بھی زیادہ ہو رہی ہے۔  گو کہ ہمارے پاس چھ ماہ کا ویزہ ہے مگر ہم کبھی اپنے ”ملخ“ سے ایک ماہ سے زیادہ دُور نہیں رہ سکتے۔ ہم وائس آف ساوتھ ایشیا کے شو کے لیے لندن آئے تھے اور سوچا تھا کہ کچھ دن آوارہ گردی کر کے واپس چلے جائیں گے مگر دوستوں کی محبت نے پاؤں جکڑ لیے اور ٹور کو ایک ماہ تک لے جانا پڑا۔ ویسے بھی ہماری انگلش کا ذخیرہ تقریباً ختم ہونے کو ہے۔ بہت سے دوست مشورہ دے رہے ہیں کہ سیاسی پناہ لے لیں کیونکہ وطن عزیز کے حالات حسب معمول دگرگوں ہیں مگر ہمارا چونکہ سیاست سے دُور دُور تک واسطہ نہیں ہے اور ثفاقتی پناہ کی فی الحال ضرورت نہیں ہے سو دوستوں کے ایسے مشورے ہنس کر ٹال دیتے ہیں کہ ہم اول و آخر پاکستانی رہنا چاہتے ہیں۔  جس دھرتی نے ہمیں نام، مقام اور عزت دی ہے اُس کو مشکل وقت میں چھوڑ دینا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ جہاں اچھا وقت دیکھا ہو وہاں بُرا بھی آ جائے تو کوئی بات نہیں۔  ہم عام آدمی ہیں کوئی سیاستدان یا بیوروکریٹ تو نہیں کہ ”چنگا چنگا ہپ ہپ تے کوڑا کوڑا تُھو تُھو “


یہاں روز ہزاروں کے حساب سے نوجوان ہجرت کر کے آ رہے ہیں، جو مستقبل کو روشن کرنے کے ارادے رکھتے ہیں۔ یہ ملک گو غیر مسلم ہے مگر یہ انصاف پر مبنی معاشرہ ہے۔  یہاں میرٹ کا نظام ہے۔

آپ میں ہنر اور قابلیت ہو تو ”ستے بنے ساوے“ ہیں۔ کہیں سفارش اور رشوت نہیں۔  یہاں چاچا، ماما کا کوئی کنسپٹ نہیں۔ جیسا ہمارے ہاں چلتا ہے، باپ کے بعد بیٹا نوکری یا اقتدار پر بیٹھ جاتا ہے چاہے وہ ”دوجہان“ کا نکھٹو نالائق کیوں نہ ہو، یہاں ایسی کوئی ریت روایت نہیں۔  یہی اس معاشرے کی ترقی کا راز ہے۔  یہ نام نسب، قوم قبیلہ نہیں دیکھتے بلکہ قابلیت کو کسوٹی اور معیار قرار دیا گیا ہے۔  یہاں بڑے بڑے سیاست دان وزیراعظم تک رہے مگر ریٹائر ہونے کے بعد اب اپنی نجی زندگی میں مصروف ہیں۔  اُن کو قوم کی راہنمائی کا درد نہیں اُٹھتا کہ یہاں نظام کام کرتا ہے حکمران نہیں۔ جہاں نظام کام کرتا ہو وہاں حکمران کالا گورا جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔  یہاں کی تعلیم یافتہ عوام بھی واقعی باشعور ہے۔

یہاں حکمران جھوٹ بولنے یا کرپشن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔  یہاں جھوٹ بولنا گناہ سے زیادہ قبیح تصور کیا جاتا ہے اور پبلک منی سے حکمران ذاتی خرچ کے لیے کھانا بھی نہیں کھا سکتا۔  یہ ہوتا ہے مہذب معاشرہ۔ جب کہ ہمارے ہاں حکمران کلاس اپنی جیب سے ٹکہ خرچ نہیں کرتی بلکہ سارا خاندان عوام کے پیسے پر پلتا ہے۔  اس لیے لوگ اس ملک میں ہجرت کر کے آتے ہیں۔  یہاں خارجیوں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مقامی گوروں کے ہیں۔  یہ بہت بڑے دل والی اور اعلی ظرف قوم ہے۔  یہ لوگ بنیادی انسانی حقوق کا ادراک رکھتے ہیں، جس کو ہمارا معاشرہ ذرا سی بھی اہمیت نہیں دیتا۔

مورخہ 6 اکتوبر کو ہمارا لوٹن میں آخری شو ہے۔  جس کے بعد ہماری وطن واپسی ہو گی۔ یہاں سردی کی شروعات ہو چُکی ہیں۔  موسم ابھی سے ٹھنڈیانی مافق ہوگیا ہے۔ دُھوپ کا دیدار محبوب کے دیدار کی طرح مشکل ہو چُکا ہے۔  سو ”پاسے سیکنے“ کے لیے
”پنڈ سجنا “ کی طرف جلد سے جلد آنا پڑے گا۔

شکیل اعوان ۔۔۔۔۔۔۔ لندن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More