kohsar adart

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔جمیل الرحمٰن عباسی

ایک منفرد شجرکاری مہم کے احوال .. جمیل الرحمٰن عباسی کے شاداب قلم سے

تحریر:۔جمیل الرحمٰن عباسی

مانگے تانگے کے ڈالروں سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بال بال بچ تو گیا لیکن ہمارے معاشی حالات بدستور خراب ہی ہیں اور سنا ہے کہ وہ ڈالر بھی ختم ہو چکے ہیں۔ مایوسی کی اس فضا میں کچھ لوگ سدھار میں مصروف ہیں ،کوئی بیج لگا رہا ہے توکوئی پودا خرید رہا ہے اور کوئی ’’ کہو‘‘ یعنی جنگلی زیتون پر اصل زیتون کی پیوند کاری کے درپے ہے۔ کسی عقل مند نے ان دیوانوں سے پوچھا لوگ آٹے کے لیے پریشان ہیں تو تمھارے ’’بوٹے‘‘ (پودے) کون خریدے اور کون لگائے؟ تو کسی دیوانے نے یقین سے کہا ’’دیکھنا ہم ایک دن آٹے کا بھی ’بوٹا‘ لگا دیں گے‘‘

 

روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ باغ لگوا رہے تھے کہ ایک آدمی آ کر کہنے لگا’’ اے امیر المومنین قیامت بس آیا ہی چاہتی ہے اور آپ باغ لگوا رہے ہیں‘‘ حضرت عثمان نے فرمایا ’’قیامت اس حال میں آئے کہ میں سدھار والوں میں ہوں، میرے نزدیک اس سے بہت عمدہ اور بہترہے کہ قیامت آئے اورمیں بگاڑ والوں میں ہوں‘‘

تو ہم پاکستان کے حالات سدھارنے کے دعوے دار نہیں ،ہاں یہ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ ہم نے سنوار والوں میں ہونا ہے نہ کہ بگاڑ والوں میں۔تو بنانے کے لیے ہمیں جو راستہ سوجھا وہ شجرکاری تھا اور وہ بھی پھلدار درختوں کی ،تاکہ مہنگائی کے اس دور میں ہمارے بچے کچھ کھٹا میٹھا ہی سہی لیکن اپنے گھر کا پھل کھا سکیں۔یہ ہماری تیسری شجر کاری مہم تھی۔ پہلی مرتبہ یعنی سنہ2021 میں ہم دو سو پودے لائے تھے۔ اگلے سال تین سو پودے لائے اور اب کی بار 900 پودے لائے گئے تھے۔ ہماری یہ مہم شجرکاری سے بڑھ کر ’’شجر شعاری‘‘ کہلائے جانے کی مستحق ہے کہ جس کے ذریعے سے ہم نے لوگوں کودرخت کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی۔ہمارے ہاں درخت پر اتنی گفتگوئیں ہوئیں کہ ہمارے بیٹے حافظ محمد نے جب دیکھا کہ مرغیاں انڈے دینا چھوڑ گئی ہیں تو کہنے لگے ’’ بابا ان مرغیوں کی جگہ انڈوں کا کوئی درخت ہی لگا دیں‘‘ اور اس سے بڑھ کر دلچسپ یہ ہوا کہ ایک دن ننھی امۃ اللہ کہنے لگی بابا ’’توریت ‘‘ کا درخت بھی لگائیں ۔ میں نے حیران ہو کر کہا ’’بیٹا تورات کا درخت کیسے لگایا جا سکتا ہے وہ تو اللہ جی کی ایک کتاب کا نام ہے‘‘۔ بولی ’’آپ نے انجیل (انجیر) کے تین پودے لگائے ہیں تو ایک توریت کا بھی لگا دیتے‘‘!
ہماری شجر کاری مہم کی خاص بات یہ تھی کہ یہ مفت نہیں تھی کہ بلاقیمت لوگوں کو پودے دے دیے جاتے۔ اس لیے کہ ہم جانتے ہیں ’’جہاں تمھارا مال ہو گا وہاں تمھارا دل ہو گا‘‘ تو مفت کے پودے کی نہ وہ قدر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی خاطر خواہ حفاظت۔ اور اس لیے بھی کہ ہم اس شجر کاری کو ’’ تعمیر وطن ‘‘ کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم کو اس گداگری سے نکالا جائے جوہمارے سوٹڈ بوٹڈ کھاتے پیتے وزیروں اور وزیراعظموں نے ہمیں سکھا دی ہے۔پھر ہماری مہم بالکل کاروباری بھی نہ تھی کہ نزدیکی نرسریوں سے سستے پودے لاکر مہنگے داموں بیچ ڈالتے بلکہ ہم نے اس کے برعکس کیا۔بندے نے بلال بھائی کے ہمراہ ترناب زرعی تحقیقاتی ادارے کی منظور شدہ نرسریوں سے ، منظور شدہ اقسام کے پودے حاصل کرنے کے لیے ترناب کا سفر کیا ۔اگرچہ یہاں سے ہمارے گاؤں کا کرایہ زیادہ پڑتا ہے جس سے پودے کی لاگت بڑھ جاتی ہے لیکن ہم نے اللہ کی توفیق سے معیار کو ترجیح دی ۔

ہم نے یہ کوشش کی کہ پودوں کا قد بڑا ہو تاکہ وہ بکری کی پہنچ سے دور ہوں۔ چناں چہ ہمارے اکثر پودے چھ سے دس فٹ کے درمیان اونچائی رکھتے تھے ۔ پھر ہم نے یہ کوشش کی کہ پودوں کی عمر دو سال سے کم نہ ہو تاکہ وہ جلد پھل دے سکیں ۔ چناں چہ کل ہمارے ’’ ریڈ لیف ‘‘ آلو بخارے اور ارلی گرینڈ آڑو نے چند پھول دکھا کر سندیسہ دے دیا ہے کہ اگلی  رت  میں ہم تمھیں اپنے پھل بھی پیش کریں گے ۔ وللہ الحمد ۔

پودوں کے انتخاب میں ہم نے ماہرین کی رائے کو ملحوظ رکھا۔ مثلا سیب میں ہمارے ہاں ’’ کالا کلو ‘‘ بہت مشہور ہے لیکن ماہرین کے مطابق ہمارے علاقے میں وہ اتنا کامیاب نہیں ہے، چناں چہ ہم نے اس سے ملتی جلتی ایک نسل ریڈ چیف کا انتخاب کیا جو اصلا” امریکی نسل ہے اور کم سرد علاقوں میں بھی اچھی پھلداری کرتا ہے۔آلو بخارے میں ہم نے ایک ہی قسم فضل منانی، سیب کی دو اقسام، ریڈ چیف اور گولڈن، آڑو کی دو اقسام ارلی گرینڈ اور فلوریڈا کنگ،ناشپاتی کی ایک قسم لی کانٹ، بادام کی دو اقسام کرشنا کاغذی اور وطنی، مالٹے کی دو اقسام ریڈ بلڈ اور شکری، انجیر کی دو قسمیں کابلی سیاہ اور بنوں سفید کا انتخاب کیا ۔ اس کے علاوہ امرود کوہاٹی،لیموں چائنہ،شہتوت سفید،انار ترناب گلابی،خوبانی بادامی،پرسیمن یعنی جاپانی پھل کے پودے بھی لائے گئے۔

ہمارا طریقہ فروخت بھی ’’ جداگانہ اصول‘‘ پر تھا۔ اکثر پودے ہم نے عام مناسب قیمت پر فروخت کیے۔ البتہ اچھی خاصی تعداد میں پودے ہم نے بہت زیادہ رعایتی نرخ پر ان احباب کو فروخت کیے جو رقم کی کمی کا ذکر کرتے تھے یا ایسے نظر آتے تھے۔ جواحباب خریدنے کی بالکل سکت نہیں رکھتے تھے تو انھیں پودے بطورِ ہدیہ بھی پیش کیے گئے۔ بعض بیوگان اور نادار حضرات کے گھروں تک پودے پہنچائے گئے ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر بھی کہ جن گھروں میں پودے لگانے والا کوئی نہ تھا ہمارے قابلِ قدر دوستوں نے انھیں پودے لگا کر بھی دیے۔اس کے علاوہ بعض اسکولوں اور مدارس میں بھی پودے لگائے گئے اور بعض آئمہ مساجد کی خدمت  میں بھی پودے بطور تحفہ پیش کیے گئے۔

بعض احباب نے ہمارے اس کام میں خاص دلچسپی لی۔ محمد نصیر عباسی صاحب بیروٹ حال مقیم راولپنڈی اور مبشر عباسی صاحب بیروٹ سندھواری حال مقیم کراچی ،زراب عباسی صاحب بیروٹ حال مقیم راولپنڈی مسلسل رابطے میں رہ کر ہماری حوصلہ افزائی کے ساتھ مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ سجاد عباسی صاحب گروپ ایڈیٹر روزنامہ امت نے  شجرکاری مہم کا تعارف کرا کر ہمارا کام آسان کرنے کی عمدہ کوشش کی جبکہ کوہسار نیوز کے مدیر اور ملکوٹ سے تعلق رکھنے والے راشد عباسی صاحب، جو برسہا برس سے راولپنڈی میں مقیم ہیں مگر ان کا دل کوہساروں اور آبشاروں کے ساتھ دھڑکتا ہے، انہوں نے بھی اپنی نیوز ویب سائٹ کو کوہسار باغبانی کیلئے پیش کر دیا۔

اسی طرح بھائی گلزمان صاحب سندھواری بیروٹ جو کاشت کاری اور باغبانی کا خاص ذوق رکھتے ہیں نہ صرف رابطے میں رہے بلکہ اپنی زمینوں میں کاشت کے لیے مختلف پھلوں کے ڈیڑھ سو پودے خریدے۔ وسیم عباسی صاحب دیول قلعہ حال مقیم لاہور نے بھی خاص دلچسپی لی اور اتنا دور سے ہو کر بھی اپنی زمینوں پر پودوں کی کاشت کا انتظام کیا ۔بانڈی چندال سے برادر ِکلاں حاجی حبیب الرحمن ،ارشد حسین ،واجد حسین ، راشد حسین ، محمد ضیاالحق اور احسن مسکین صاحبان نے شجرکاری میں نہ صرف خود خاطر خواہ حصہ لیا بلکہ ان میں سے بعض حضرات دوسروں کو بھی اس جانب متوجہ کرتے رہے ۔برخوردار وقاص اعجاز صاحب حال مقیم سعودی عرب بھی شجر کاری میں خاص دلچسپی لیتے رہے ۔ بندہ ناچیز خاص طور پر شکرگزار ہے بلال قیوم عباسی ، نزاکت حسین عباسی اور محمد الطاف صاحبان کا کہ ان حضرات نے جانی و مالی ہر دو اعتبار سے بھرپور تعاون کیا ۔اللہ کے فضل سے امید ہے کہ ہماری یہ حقیر کاوش ہمارے علاقے میں باغبانی اور زراعت کے احیاء کا ذریعہ بنے گی ۔دعا یہی ہے کہ :
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے ،

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More