نامور شاعر اور کہوٹہ کی سیاسی شخصیت جناب جاوید احمد عباسی کی رحلت ایک قومی نقصان
تحریر : راشد عباسی
نامور شاعر اور کہوٹہ کی سیاسی شخصیت جناب جاوید احمد عباسی کی رحلت ایک قومی نقصان
کشمیر کے حوالے سے لکھے جانے والے ترانے "دنیا کے منصفو” سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے شاعر، بابائے کہوٹہ جناب جاوید احمد عباسی مختصر علالت کے بعد جہان فانی سے ملک عدم سدھار گئے۔ ان کو کہوٹہ میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔ راولپنڈی ، اسلام آباد ، پوٹھوہار اور دیگر علاقوں سے اہل علم و ادب نے خراب موسم کے باوجود جنازے میں شریک ہو کر جناب جاوید احمد عباسی سے اپنی لازوال محبت کا اظہار کیا۔
مقامی شعراء جناب حسن ظہیر راجہ، عبدالرحمن واصف، پروفیسر حبیب گوہر، مطیع احمد مجتبی اور دیگر دکھ کی تصویر بنے تھے۔ احباب کی تعزیت پر انھوں نے کہا کہ کہوٹہ استاد مکرم جاوید احمد کی رحلت سے ادبی طور پر یتیم ہو گیا ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کی صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف اور اکادمی کے ڈی جی نے جاوید احمد کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔
جناب جاوید احمد کے شاگرد رشید عبدالرحمن واصف اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔۔
اے موجِ تمنا!
تھم جا کہ یہاں ماتمِ احساس گراں ہے
آنکھوں میں نمی دل میں قیامت کا سماں ہے
اک موسمِ خوش رنگ ہوا ہاتھ سے رخصت
اک شخص کے جانے پہ فضا نوحہ کناں ہے
رکتا ہی نہیں آنکھ سے جذبات کا دریا !
اے موجِ تمنا!
۔۔۔۔
اے موجِ تمنا!
جس ذات کے ہونے سے ہمارے تھے شب و روز
مہکے ہوئے احساس کے دھارے تھے شب و روز
وہ ایک گھنا پیڑ جو اب کٹ کے گرا ہے
اس پیڑ کی چھاؤں میں گزارے تھے شب و روز
اب ہم ہیں اور اس پیڑ کے ڈھے جانے کا صدمہ
اے موجِ تمنا !
۔۔۔۔۔
اے موجِ تمنا!
ہم سوگ کے عالم میں کئی روز سے گھائل
اک موت کی آمد پہ اور اک سوز سے گھائل
آئندہ سے ڈر رکھتے ہیں امروز سے گھائل
اک سانحہء وحشتِ دلدوز سے گھائل
تھم جا کہ نہیں ٹھہرا ابھی درد کا دھارا
اے موجِ تمنا!
رب رحیم و کریم جناب جاوید احمد کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین ثم آمین