میں کوہسار میں بستا ہوں یا کوہسار مجھ میں
"بے جی ! میں کل پنڈی گے ساں۔ مہاڑے کپڑے تے چادر تھیلی وچ بائی شوڑیا تے نال مٹھیاں گوغیاں وی بنائی دیا۔ راہ بہوں لما آ، تے پتہ نا کتنے تہاڑیاں بعد مڑی ایساں۔ میکی نکی نکی لوئی ویلے جغائی شوڑیا۔۔ فدریں نی نماز کاسیر بگلے باوے اوراں نی مسیتی چ گچھی پڑھساں۔ سیالے نا سرا سودا کنی تے بیلا مڑی اے ساں”
"اللہ مہاڑے پترے کی خیری نال کھڑے تے خیری نال آنے۔پترا پردیس جلیا ایں تے اپنا بہوں خیال رکھیں۔ بیہلا مڑی اچھیں”.
میں ایک پہاڑیا ہوں۔ ایک کوہستانی ہوں۔ ایک قبائلی ہوں۔ کوہسار کا باسی ہوں ۔
برسوں سے میرے راستے میں دو مقام ایسے آتے ہیں جہاں سے گزرتے ہوئے یہ ہمیشہ احساس ہوتا ہےکہ میں اپنے پہاڑوں اور اپنی آزاد فضاوں سے دور جانے لگا ہوں۔۔
ایک مقام "سالگراں کا پل” ہے اور دوسرا سترہ میل کے مقام پر "قدیم برگد کا درخت”۔
میں جہاں بھی چلا جاؤں، جس رنگ میں بھی رنگ جاؤں، جو زبان بھی بولوں۔۔۔ میرے اندر سے میرے پہاڑوں، جھرنوں، ندیوں، پرندوں کی آواز اور پھولوں کی خوشبو نہیں جاتی۔
میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، لندن، نیویارک، ٹوکیو، جدہ ہرجگہ پایا جاتا ہوں۔ وہاں کے ماحول میں رچ بس جاتا ہوں۔ مگر ہر آن میری آنکھوں کے سامنے ایک منظر ٹھہرا رہتا یے کہ کب سالگراں کا پل پار کروں گا۔۔۔
سالگراں کے پل کے اس پار جب بہار آتی ہے تو درخت خوبانی کے سفید پھولوں سے لد جاتے ہیں۔۔ فضاؤں میں پرندوں کے گیت پھیل جاتے ہیں۔ پہاڑی چشموں اور بہتی ندیوں کا پانی جلترنگ بجاتا ہے۔۔ سب سے بڑھ کر جنگل کی خوشبو آتی ہے۔ ایسی خوشبو جو مرد کوہستانی کو آزادی کا سبق پڑھاتی ہے۔
(میرا ایک دوست کہتا ہے ) ۔۔۔۔۔۔۔
جب میں Oxford Street سے پیدل چل کر کام کرنے Kings Cross جایا کرتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے پڑاؤ بازار سے دھلہ روڈ باسن کیری کی طرف جارہا ہوں ۔اس طرح دو میل کا یہ روزانہ کا سفر منٹوں میں کٹ جاتا ہے۔ میرا جسم تو لندن میں ہے مگر میرا دل کوہساروں میں ہے۔
میں نے Chelsea میں اپنے گھر کے ڈرائنگ روم کی دیوار پر اپنے دادا جی کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر لگائی ہوئی تھی، جس میں وہ شملے والی پگڑی پہنے کھڑے ہیں۔۔ کارنس پر چیڑھ کے درخت کا ایک کھنگلا رکھا ہوا تھا۔۔
(ایک اور دوست کہتا ہے) میں صبح چار بجے اٹھ کر ٹاٹا کی گرم بس میں 125 کلومیٹر صحرا میں سفر کر کے شارجہ سے دبئی کی طرف جاتا ہوں تو آنکھیں بند کر کے مری سے کوہالہ کا سفر تصور کر لیتا ہوں۔ اس طرح نہ مجھے گرمی لگتی ہے اور نہ سائٹ کے جھمیلوں کی پروا رہتی ہے۔۔
میں سپین میں ٹیکسی چلاتا ہوں۔ بارسلونا سے میڈرڈ کے چکر لگاتا ہوں۔ مگر میرا دل پہاڑوں میں اٹکا رہتا ہے۔میں کیلی فورنیا سے 12 گھنٹے کی فلائٹ میں اسلام آباد پہنچنے کے بجائے خواب و خیال میں سیکنڈوں میں سالگراں پل پار کر جاتا ہوں۔۔۔
کبھی کبھی میں زندگی کی آسانیاں اور آسائشیں تلاش کرتے کرتے بہت دور نکل جاتا ہوں۔ مجبوریوں اور ضرورتوں سے لڑتے ہوئے یا کبھی کبھار مال و اسباب جمع کرنے کی ہوس مجھے واپس نہیں آنے دیتی ۔۔ پھر میں تابوت میں بند ہوکر واپس لایا جاتا ہوں ۔۔
کاش میں بھی اپنے آباء و اجداد جیسا ہوتا، جو اپنی مٹی میں اپنا رزق تلاش کر لیا کرتے تھے۔ کبھی دور دیس جا کر کسی کی غلامی نہیں کرتے تھے۔
دنیا میں کیا ہو رہا ہوتا تھا، انہیں اس کی خبر ہوتی تھی نہ ہی پروا۔۔ قناعت کے حصار میں، اپنے کچے گھروندوں میں سکون کی نیند سویا کرتے تھے۔ فطرت کی ساری رعنائیوں اور رنگوں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔۔ شام ڈھلے دیے کی روشنی میں جاہ نماز پر اللہ سے برکت مانگا کرتے تھے۔۔ اور پھر واقعی برکتیں نازل ہوا کرتی تھیں۔۔
ان کے لیے پنڈی جانا بھی پردیس جانے کے برابر تھا۔میلوں پیدل چلنے کے بعد ٹانگے کی سواری کبھی کبھی میسر ہوتی تھی۔ پنڈی جانے سے پہلے امام ضامن باندھا کرتے تھے۔۔
ادھی ادھی راتیں اشناں ایں وے کپڑیاں کی لائی نیل
"پنڈیوں کرانا ایں ٹانگا وے الہناں ایں سترہ میل”
میں جدت کے خلاف نہیں ہوں۔ جدید چیزوں کے استعمال کے خلاف نہیں ہوں۔ بدلتے وقت کے جدید تقاضوں کے خلاف نہیں ہوں۔ مجھے ان سب کے بدلے میں خود سے بچھڑنے، اپنے سکون سے محروم ہونے اور اپنی زمین کی خوشبو کھونے کا دکھ ہے۔۔
سترہ میل کا صدیوں پرانا برگد کا درخت اس زمانے میں بھی میرے لیے ایک سنگ میل تھا اور آج بھی ہے۔۔ یہ سرحد ہے باقی دنیا اور میری جنت کے درمیان۔۔
حبیب عزیز
اوسیاہ، کوہ مری
10 اکتوبر 2024ء