
مٹی پاؤ، تے اگے جاؤ
تحریر : محمد اعظم رضا تبسم
The past is a place to learn from, not to live in
1976ء میں جب امریکی اپنے ملک کی دو سو سالہ تقریبات منا رہے تھے تو جاپان نے امریکہ کو سالگرہ کا ایک تحفہ دیا۔ یہ تحفہ 53 شاہکار بونسائی کے درخت تھے۔ جابان کی طرف سے امریکہ کے لیے یہ کوئی پہلا تحفہ نہیں تھا بلکہ 1912ء میں بھی ٹوکیو کے میئر نے 3,000 چیری کے درخت واشنگٹن بھیجے تھے۔ نیشنل مال پر واقع اِن درختوں پر ہر موسم بہار میں خوب صورت پھول کھِلتے۔ بدلے میں امریکہ نے جاپان کے ساتھ کیا کیا ۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم تو آپ کو یاد ہی ہوں گے۔ جن سے 2 سے 3 لاکھ لوگوں کی جانیں گئیں۔ اس واقعے نے ساری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ اس بمباری کے اثرات ہیں کہ آج بھی ہیروشیما اور ناگاساکی میں بچے کسی نہ کسی خلقی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔
انفرادی طور پر بھی ہمارے کئی ایسے دوست ہوتے ہیں جنھیں ہم تحفے دیتے ہیں لیکن بدلے میں وہ ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس نقصان کو وقت گزرنے کے ساتھ قصہ پارینہ بن جانا چاہیے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نقصانات کو روگ بنا کر جی سکتے ہیں۔ کیا اپنے زخموں کو روز تازہ کرنے سے زخم بھر سکتے ہیں۔ جو لوگ حادثات کو یادوں میں تازہ رکھ کر انھیں ماضی نہیں بننے دیتے وہ کسی اور کا نہیں بلکہ سب سے زیادہ اپنا نقصان کرتے ہیں۔
آج جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی ترقی سے پندرہ سال آگے چل رہا ہے۔ وہ سائنسی دنیا میں اپنا ایک بڑا نام رکھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ اس نے اپنے نقصان کو اپنا روگ نہیں بنایا ۔
جو قومیں اور جو افراد ماضی کے نقصانات کو اپنے پاؤں کی زنجیر بنا لیتے ہیں وہ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اگر میں سوال کروں کہ کیا آپ نے زندگی میں اتنا نقصان اٹھایا جتنا جاپان نے امریکہ کے ایٹم بم کی وجہ سے اٹھایا؟ تو کسی کا بھی جواب ہاں میں نہیں ہو گا۔
نقصان زندگی کا حصہ ہے۔ کئی دفعہ ہم اپنی غلطیوں کی بدولت نقصان اٹھاتے ہیں اور بعض اوقات دوسروں کی غلطیوں اور چالاکیوں کی بنا پر بھی ہمیں نقصان ہوتا ہے۔ لیکن جو نقصان ایک بار ہو گیا اس کے بارے میں تاسف اور پچھتاوے سے یا بیٹھ کر رونے سے اس نقصان کا مداوا تو نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی گیا وقت تو کسی صورت لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ لہذا مٹی پاؤ تے اگے جاؤ ۔
یقین جانیے! ہم اپنا ماضی بدل نہیں سکتے مگر اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنا مستقبل ضرور بہتر بنا سکتے ہیں۔ ہمیشہ ان جملوں کو دھراتے رہیں۔۔۔۔
"میاں آگے کی فکر کرو، جو ہوگیا، وہ ہوگیا۔ اسے بھول جاؤ۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھو اور مستقبل کی پیش بندی کرکے سعی پیہم کا راستہ اپناؤ۔ مستقبل تمہارا ہے۔”
مستقبل میں اچھّے نتائج حاصل کرنے کے لیے ہم بغیر پیش بندی کے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتے لیکن مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔
یاد رکھیے ! بڑی منزل کے مسافر کسی حادثے کی بدولت اپنا سفر نہیں روکتے۔
اعظم رضا تبسم