top header add
kohsar adart

محمد آصف مرزا کا شعری مجموعہ "صدا پانی کی”

 

جی میں آتا ہے کہ اقرار محبت کر لوں
یہی تدبیر نظر آتی ہے آسانی کی

یہ وہ آفاقی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر اس کائنات کا ظہور ہوا اور یہی وہ کائناتی عقیدہ ہے جسے کائنات کا محور و مقصد کہنے میں کوئی عذر مانع نہیں۔

کسں طرح شکر بجا لاؤں ترا رب جمیل
حسن کی خود کو، مجھے عشق کی ارزانی کی

شاعری جہاں وصف اظہار اور فرط افکار کا بہترین نمونہ ہے، وہیں شاعری کو کائنات کی زبان کہنا بھی میرے خیال میں چنداں مضائقے والی بات نہیں۔

عشق پہلا پڑاؤ تھا میرا
عشق ہی آخری ٹھکانہ ہے
اس سے مضبوط اور کوئ نہیں
وہ تعلق جو غائبانہ ہے

اور یہ محض دعوے تک محدود بات نہیں بلکہ انسانی تاریخ خود اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ شاعری دنیا کی فصیح و بلیغ زبانوں میں بطور سرمایہ و اثاثہ ہمیشہ سے موجود مذکور پائی گئ ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یقینا امکانات کی پذیرائی اور توازن آشنائی ہے، جو شاعری کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ اور زندگی کے مسلسل معمولات سے مربوط فلسفے کا نفیس اظہار یے۔
اندھیروں نے بہت چاہا چھپانا
دیے نے سب کہانی کہہ سنائی

قدیم و جدید کی بحث سے قطع نظر ، شاعری ہر زمانے میں اپنی فکری ساختیات اور جمالیاتی لوازمات میں منفرد اور معتبر اہمیت کی حامل سمجھیں جاتی رہی ہے اور جب تک زمین پر انسان کا وجود باقی ہے یہ سلسلہ جاری و ساری نظر آتا یے۔
امکانات اور خدشات کی پہلو بہ پہلو رواں زندگی، شاعری کے حسن اظہار سے مالامال قرینے بھی رکھتی ہے اور دشت و بیاباں کی اجاڑ داستانوں سے بھی آشنا یے۔ اور اس تمام تر واقعے کو بیان میں لانے کا حوصلہ اور صلاحیت بھی۔

ترے خیال میں اک نقش اولیں میں تھا
مٹا نہ دینا کہیں دوسرا بناتے ہوئے
ہر ایک لمحہ نئی ہوتی کائنات قدیم
پرانا ہو گیا ہوں میں نیا بناتے ہوئے

شاعری جہاں ذات میں انجمن آرائی کا فن رکھتی یے وہیں شعور عصر اور وفور فکر سے آراستہ سماج کی آواز بھی ہے۔۔ اور کسی بھی صاحب فن یا تخلیق کار کے لیے باعث اطمینان وہی لمحہ ہوتا ہے جب وہ ذات اور کائنات کو اپنے شعری فلسفے کی زبان میں میں نئے بیانیے سے روشناس کروائے اور نئے امکانات اور الگ اسلوب کو ذریعہ اظہار بنائے ۔۔

ترے خیال کے سانچے میں ڈھل نہ جاؤں کہیں
میں اپنے آپ سے باہر نکل نہ جاؤں کہیں
میں بچ کے دھوپ نگر سے نکل تو آیا ہوں
گماں ہے برف کی حدت سے جل نہ جاؤں کہیں

شاعری کا ایک اچھوتا اور منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عصری استدلال اور سماجی احوال سے بہرہ ور جذبوں کو نمو کی سہولت بہم پہنچاتی ہے۔ اور اس زرخیزی کا تمام تر فیض انسان کے نام ہوتا ہے۔۔۔ وہ مثبت کا استعارا ہو یا منفی کی نشاندہی، ایک باشعور شاعر احساسات اور جذبات کی حقیقی ترجمانی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا ۔۔

اندر سے، جھانکیے تو ہیں پتھر خصال سب
جو دیکھنے میں صورت برگ گلاب ہیں
یہ کائنات تو نے لکھی ہے ہمار ے نام
ہم کیا ہیں اس جہاں میں ترا انتخاب ہیں

اور اس انتخاب کے بعد کی کہانی نہ صرف تاریخ میں موجود ہے بلکہ لمحہ بہ لمحہ یہ کہانی نئے زمانوں کے ارتقائی فکر کا بھی حصہ رہی ہے اور یہ سلسلہ ہائے ایں و آں سے متصل بھی ہے اور معلوم بھی۔

شاعری کا انداز بیاں اور شاعر کا حسن بیاں اس سفر کو اپنے اسلوب میں ڈھالتے ہیں تو الگ ہی ماحول بنتا یے۔۔ جہاں حاصل و واصل کے ساتھ ساتھ حائل اور گھائل بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔۔۔۔۔

آغاز و انتہا کی خبر تو نہیں، مگر
سمٹا ہے اک زمانہ مری داستان میں
ظاہر ہوا ہے آج ترا کذب اندروں
لکنت سی آگئی ہے جو تیری زبان میں

شاعری جہاں وسعت ادراک کا مضمون بنتی ہے، وہیں قناعت سے بھی آشنائی کے اعزاز رکھتی ہے۔۔۔ اور یقینا زندگی کا سفر ان دونوں کی ہم آہنگی سے عبارت ہے۔
ایک شاعر کا تخیل انہی جذبوں سے نئی فکر اور نئے جہانوں کا ادراک مفصل کرتا دکھائی دیتا ہے ۔۔
ایک ایسا جہان جو انسان کو اپنے خاک داں سے جوڑتا ہے اور بڑائی کے نئے معانی آشکار کرتا ہے ۔۔۔۔

نہ ٹوٹے گا کبھی اس خاک سے بندھن ہمارا
یہی مولد ہمارا اور یہی مسکن ہمارا
یہاں پر بیٹھ کر تکتے ہیں سارا آسماں ہم
اگرچہ ہے بہت چھوٹا سا یہ آنگن ہمارا

یہ سب خیال، الفاظ کی صورت وجود میں آئے جب شاعری کی ایک خوب صورت کتاب "صدا پانی کی"
کا ایک سرسری مطالعہ مجھے نصیب ہوا۔  میں کوہ مری کے دل نشیں اور حسن پرور کوہساروں کے باسی ۔۔
محمد آصف مرزا صاحب، کا احسان مند ہوں کہ انھوں نے مجھے اس کتاب کے تعارف اور مطالعے کا موقع فراہم کیا ۔۔  اور ان اشعار کی برکت اور سعادت نے یقینا ان کی شاعری کا قد کاٹھ بلند و بالا کر دیا جو بارگہء تاجدار کائنات میں پیش کی گئی ایک نعت میں شامل ہیں۔۔۔ گویا کہ موسم شعر میں دائمی بہار کا عنوان اور ایمان تو یہی نظریہ ہے ۔۔۔۔۔

آپ سے پہلے کا موسم اک خزاں کا دور تھا
حشر تک قائم ہے اب رنگ بہار مصطفے
یاد رکھیں ہم کہ ہے قرب الہی کا نشاں
جس قدر جس کو ملا ہے، اعتبار مصطفے
(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد رہے کہ جناب محمد آصف مرزا کی ایک عدد اور کتاب ” کھلا ہے باب, سخن” (جو شعر وادب کے حوالے سے لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، جو انھوں نے مختلف ادباء اور شعراء کی کتابوں پر تبصرے کی صورت رقم فرمائے) مجھ تک پہنچ چکی ہے اور آئندہ کسی موقع پر اس پر بھی اظہار خیال کی کوشش کروں گا۔۔۔ ان شاءاللہ ۔
دونوں کتابوں پر داد و تحسین اور دعائے خیر و برکت پیش کی جاتی ہے ۔

وما توفیقی الاباللہ۔

احمد ریاض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایبٹ آباد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More