قرب الہٰی کی معراج …حکایت ہجویری
انتخاب، تحریر و تہذیب ... ڈاکٹرفاروق عادل
ایک بزرگ تھے، یحییٰ بن معاذ، اپنے آپ میں گم رہتے۔ اپنی خبر ہوتی نہ ارد گرد کی۔ لوگ انھیں دیکھتے اور کہا کرتے:
‘ یہ شخص تو کام سے گیا۔’
دنیا کیا کہتی ہے، اس سے انھیں کچھ مطلب نہیں تھا۔ زمانے بیت گئے لیکن وہ اپنے آپ میں مگن رہے پھر کسی نے ہمت کی اور ان سے کلام کیا کہ اے بندہ خدا۔ خدا کو یہ پسند نہیں کہ مخلوق خدا سے بے نیاز ہو کر کسی گپھا میں جا گھسو۔ اپنا خیال بھی رکھو، اپنے عیال سے بے خبر نہ رہو اور اپنے گرد و پیش سے بھی۔
ہر چند اس بزرگ کو یہ تنبیہ پسند نہ آئی لیکن ہر کس و ناکس کی باتیں سن سن کر انھوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ کسی بزرگ سے اس سلسلے میں راہ نمائی لیتے ہیں اور ان کی مدد سے اعتراض کرنے والوں سے نمٹتے ہیں۔ حضرت با یزید بسطامی کہ اس عہد کے نامی ولی اللہ تھے، یحییٰ نے ان کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا جس میں عرض گزار ہوئے:
‘ اے سر تاج اولیا! کیا فرماتے ہیں آپ اس خوش نصیب کے باب میں جسے بحر محبت سے ایک قطرہ میسر آیا اور اس کی برکت سے وہ علائق دنیوی سے بے نیاز ہوا۔’
حضرت نے یہ خط پڑھا پھر حضرت یحییٰ بن معاذ پر توجہ فرمائی۔ آپ نے خط میں سوالیہ انداز میں تحریر فرماہا:
‘ کیا کہتے ہو یحییٰ اس مے نوش کے بارے میں جس کی قسمت میں تمام بحر ہائے محبت لکھ دیے گئے، وہ ان سے فیض یاب ہوا لیکن اب بھی کہتا ہے، ہل من مزید۔ تمنا ابھی باقی ہے، پیاس ابھی باقی ہے۔’
حضرت یحییٰ بن معاذ علیہ رحمہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی انھوں نے حضرت کا نامہ مبارک پڑھا، چکا چوند ہو گئی۔ وہ ایک دنیا سے نکلے اور دوسری دنیا میں داخل ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفہوم اس حکایت کا یہ ہے کہ اللہ کا قرب اور عنایت یہ نہیں کہ ذرا سا سفر طے کر کے سالک مغلوب الحال ہو جائے یعنی خود سے، اپنے اہل و عیال سے اور اللہ کی مخلوق سے بے نیاز ہو جائے۔ یہ کیفیت مطلوب نہیں ہے۔ پسندیدہ یہ ہے کہ سالک کو جب اللہ کا قرب نصیب ہو جائے تو وہ محبتیں بانٹنے والا بن جائے، ہر کس و ناکس کا راہ نما بن جائے اور ایسا کسی دعوے کے بغیر ہو جائے۔ یہی معراج ہے قربِ الٰہی کی۔
کشف المحجوب سے ماخوذ