top header add
kohsar adart

فرنٹئیر میل 1930 ۔۔۔ راولپنڈی سے پشاور

فرنٹئیر میل 1930 ۔۔۔۔ راولپنڈی سے پشاور

فرنٹئر میل برطانوی ہند کی سب سے تیز رفتار لگژری ٹرین تھی، جو بمبئی سے پشاور تک چلا کرتی تھی۔
یہ رومانوی ٹرین یکم ستمبر 1928ء کو شروع کی گئی۔

بمبئی سے پشاور 2335 کلومیٹر دور تھا۔ انڈین ریلوے کی باقی گاڑیاں اتنا سفر کئی دن میں طے کرتی تھیں مگر فرنٹیئر میل 72 گھنٹوں میں یہ فاصلہ طے کیا کرتی تھی۔

فرنٹیئر میل کی فرسٹ کلاس کو 1934ء میں ائیر کنڈیشن کر دیا گیا۔ اس طرح یہ ہندوستان کی پہلی اے سی ٹرین بن گئی۔ فرسٹ کلاس کے ڈبوں کے نیچے ایک باکس میں برف کی سلیں تہہ در تہہ لگا کر پنکھا چلا دیا جاتا تھا۔ اس پنکھے کی ہوا برف کی سلوں سے گزرتی ہوئی جب بوگی میں داخل ہوتی تو ٹھنڈک پیدا ہوجاتی تھی۔ راستے میں آنے والے سٹیشنوں سے باکس میں تازہ برف بھر دی جاتی۔

اس ٹرین میں زیادہ تر انگریز سفر کرتے تھے۔ اس ٹرین کے متلعق مشہور تھا کہ ” آپ کی کلائی پر بندھی رولیکس گھڑی تو دھوکہ دے سکتی ہے مگر فرنٹئیر میل دھوکہ نہیں دے سکتی”۔  1930ء میں ٹائمز آف لندن نے فرنٹئیر میل کو برطانوی سلطنت کی بہترین تیز رفتار ٹرین قرار دیا۔

ایک ویڈیو بھی دستیاب ہے جس میں فرنٹئیر میل کا راولپنڈی سے پشاور تک کا سفر اور 1930ء کا پشاور شہر دکھایا گیا ہے۔

انگریز کو ہندوستان میں صرف پٹھان قوم کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ باقی ہر جگہ وقتی اور معمولی مزاحمت ہوئی مگر پٹھانوں نے برسوں تک انگریز کو زچ کیے رکھا۔ انگریز پٹھان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا مگر پٹھان کی دلیری سچائی اور سادگی کا عاشق بھی تھا۔

فرنٹئیر میل کی رومانوی داستان انہی دو قوموں کے درمیان ہونے والی جنگ اور محبت سے عبارت تھی۔ فرنٹئیر کور کے آفیسرز میں صرف رائل برٹش فیملی اور ان کے دوستوں کو بھرتی کیا جاتا تھا۔

فرنٹئیر کانسٹیبلری ،بنوں سکاوٹس، ٹوچی سکاوٹس اور خیبر رائفلز کے تمام آفیسر انگریز ہوتے تھے، جو زری کی کلاہ اور پگڑی کے ساتھ ملیشیا کی شلوار قمیص اور پشاوری چپل پہنا کرتے تھے۔
شمال مغربی سرحدی صوبہ، جسے اب خیبر پختون خواہ کہا جاتا ہے، ہندوستان کی انگریز حکومت کے لیے ایک درد سر تو تھا مگر انگریزی فوج کا ہر آفیسر یہاں آنا چاہتا تھا۔ تاکہ جب وہ واپس انگلینڈ جائے تو سب کو "کھائبر پاس” ( خیبر پاس ) کی لڑائیوں کے قصے سنا کر متاثر کر سکے۔

دلیر قوموں کو دلیری بہت متاثر کرتی ہے۔ پٹھان نے اپنی دلیری سے انگریزوں کو بہت متاثر کیا تھا۔

مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب میں ایک پٹھان کردار کی زبانی ایک واقعہ لکھتے ہیں۔۔
"میرے ماموں نے کاتوری خیل میں تین انگریز مار گرائے۔۔ان میں سے ایک معمولی سپاھی تھا، جس کی جیب سے اس کی ننھی سی بچی اور بوڑھی ماں کی تصویر نکلی۔۔ تصویر دیکھ کر میرا ماموں بہت رویا۔۔اس نے انگریز سپاھی کی سونے کی گھڑی واپس اس کی کلائی پر باندھی اور اس کی لاش اٹھا کر درخت کے سائے میں رکھ کر اپنی چادر اس پر پھیلا دی”

بنوں، وانا، خیبرپاس، لنڈی کوتل، اور فقیر ایپی کے ساتھ لڑائیوں میں انگریز کو بہت نقصان ہوا لیکن ساتھ میں پٹھان قوم کی عزت اس کے دل میں گھر کر گئی۔۔

فرنٹیئر میل اسی جنگ ، بہادری ، محبت اور عزت کی رومانوی داستان تھی۔

حبیب عزیز ۔۔۔۔ اوسیاہ مری
8 اکتوبر 2024

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More