top header add
kohsar adart

فتح محمدملک کی کتاب اقبال فراموشی سےاقتباسات

یہ مضامین فقط ایک سوال سے پھوٹے ہیں کہ ہمارے ہاں اقبال کے انقلابی تصورات کے عملی امکانات بروئے کار کیوں نہ آ سکے ؟
اس سوال کے بطن سے اس دوسرے سوال نے جنم لیا ھے کہ ہمارے ہاں فکر اقبال کے انقلابی ممکنات کا بروئے کار آنا دائرہ امکان میں ھے بھی یا نہیں ؟
یہ سوالات مجھ سے آپ سے ھم سب سے جواب طلب ہیں ۔

ان کا جواب ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو مجھے اقبال کی ایک نصحیت یاد آتی ھے اور وہ یہ کہ ترک دنیا نہ کرو بلکہ ترک فرنگ کا راستہ اپناؤ ۔ھم اب تک یہ راستہ نہیں اپنا سکے نتیجہ یہ کہ ھمارے بالا دست طبقات وھی ہیں جو کہ تھے اور جنہیں اقبال نے "مسجد فروش ” اور کلیسا دوست کہا تھا ۔
اب تک ھم نے اپنی اجتماعی زندگی کے سنگین مطالبات کے حوالے سے فکر اقبال کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔
ہمیں اقبال کے تصورات کو رد کردینے کا حق حاصل ہے مگر اس سے پہلے ہمارے لئے ان افکار کو سمجھنا بے حد ضروری ھے تاکہ رد کرتے وقت ہمیں بخوبی علم ہو کہ ہم کیس رد کر رھے ہیں ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بے سوچے سمجھے فکر اقبال سے کترا کر عہد غلامی کے دوران اپنائے گئے راستوں پر بھاگتے چلے جا رھے ہیں ۔نتیجہ یہ کہ قومی آزادی اور خودمختاری کی منزل ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو چلی ہے ۔اقبال کو پڑھنا اور سمجھنا اس منزل کے نشانات کو سمجھنا ھے ۔

 

سنگ میل پبلشرز

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More